Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: Looking towards the sky during As-Salat (the prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
750.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوا وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟‘‘ پھر آپ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: ’’لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے یا پھر ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔‘‘
تشریح:
(1) شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔ نماز کے علاوہ بھی قاضی شریح وغیرہ نے اسے مکروہ کہا ہے مگر اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ جس طرح کعبہ معظمہ نماز کے لیے قبلہ ہے اسی طرح آسمان دعا کا قبلہ ہے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ایک قسم کا قبلے سے اعراض ہوتا ہے، اس کے علاوہ نماز کی حیثیت وصورت سے بھی نکلنے کا باعث ہے۔ (فتح الباري:302/2) دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ممانعت کیوں ہے؟حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ایک وعید ہے اور ایسا کرنا حرام ہے لیکن امام ابن حزم ؒ نے افراط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ بعض نے اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس کام سے ممانعت نگاہوں پر شفقت کے پیش نظر ہے کہ نمازیوں پر حالت نماز میں فرشتے انوار وتجلیات کی بارش کرتے ہیں۔ اگر اس دوران میں نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جائے تو شدت انوار کی وجہ سے ان کی روشنی سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے واقعے میں ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کتاب فضائل القرآن میں بیان ہوگی۔ (فتح الباري:303/2) سنن ابن ماجہ میں اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’لوگوں کا کیا حال ہے وہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔‘‘ پھر انتہائی غصے میں فرمایا:’’وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کی بصارت سلب کرلے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1044) (2) ابن بطال ؒ نے دعا کے لیے آسمان کو قبلہ قرار دیا ہے۔ یہ محل نظر ہے کیونکہ دعا اور نماز کا ایک ہی قبلہ ہے، کیونکہ اولاً: دعا کے لیے آسمان کا قبلہ ہونا محتاج دلیل ہے، کتاب وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، پھر رسول اللہ ﷺ دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرتے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز ہر چیز کا قبلہ وہی ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہو نہ کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا پڑے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
742
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
750
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
750
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
750
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو کیا ہوا وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟‘‘ پھر آپ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: ’’لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے یا پھر ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔ نماز کے علاوہ بھی قاضی شریح وغیرہ نے اسے مکروہ کہا ہے مگر اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ جس طرح کعبہ معظمہ نماز کے لیے قبلہ ہے اسی طرح آسمان دعا کا قبلہ ہے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ایک قسم کا قبلے سے اعراض ہوتا ہے، اس کے علاوہ نماز کی حیثیت وصورت سے بھی نکلنے کا باعث ہے۔ (فتح الباري:302/2) دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ممانعت کیوں ہے؟حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ایک وعید ہے اور ایسا کرنا حرام ہے لیکن امام ابن حزم ؒ نے افراط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔ بعض نے اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس کام سے ممانعت نگاہوں پر شفقت کے پیش نظر ہے کہ نمازیوں پر حالت نماز میں فرشتے انوار وتجلیات کی بارش کرتے ہیں۔ اگر اس دوران میں نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جائے تو شدت انوار کی وجہ سے ان کی روشنی سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔ جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے واقعے میں ہے۔ اس واقعے کی تفصیل کتاب فضائل القرآن میں بیان ہوگی۔ (فتح الباري:303/2) سنن ابن ماجہ میں اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’لوگوں کا کیا حال ہے وہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔‘‘ پھر انتہائی غصے میں فرمایا:’’وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کی بصارت سلب کرلے گا۔‘‘ (سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1044) (2) ابن بطال ؒ نے دعا کے لیے آسمان کو قبلہ قرار دیا ہے۔ یہ محل نظر ہے کیونکہ دعا اور نماز کا ایک ہی قبلہ ہے، کیونکہ اولاً: دعا کے لیے آسمان کا قبلہ ہونا محتاج دلیل ہے، کتاب وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، پھر رسول اللہ ﷺ دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرتے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز ہر چیز کا قبلہ وہی ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہو نہ کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا پڑے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن مہران ابن ابی عروبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک ؓ نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ نے اس سے نہایت سختی سے روکا۔ یہاں تک آپ نے فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
فرشتے اللہ کے حکم سے اس کی بینائی سلب کرلیں گے۔ حافظ ؒ نے کہا یہ کراہت محمول ہے اس حالت پر جب نماز میں دعا کی جائے جیسے مسلم میں عندالدعاء کا لفظ زیادہ ہے۔ عینی نے کہا کہ یہ ممانعت مطلق ہے نماز میں دعاء کے وقت ہو یا اورکسی وقت۔ امام ابن حزم ؒ نے کہا ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) said, "What is wrong with those people who look towards the sky during the prayer?" His talk grew stern while delivering this speech and he said, "They should stop (looking towards the sky during the prayer); otherwise their eye-sight would be taken away."