کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا قیامت کے دن انبیاء اور دوسرے لوگوں سے کلام کرنا برحق ہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: The Talk of the Lord عزّ وجلّ to the Prophets and others on the Day of Resurrection)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7513.
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔“
تشریح:
1۔گویا سب معبودان باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔ اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مذکورہ ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔ بلا شبہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئےگا۔ جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولنا کیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔ کسی کوکلام کرنے کی ہمت اور فرصت نہیں ہو گی۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کر کے پوچھے گا ۔ ’’آج حکومت کس کی ہے؟ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا۔ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے جو بہت دبدبے والا ہے۔‘‘ (المؤمن: 40۔16) 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اس بات پر آئی کہ یہودی عالم اللہ تعالیٰ کی شان کس انداز سے بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ یہود وہ قوم ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت کو کماحقہ نہیں سمجھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی صحیح اور سچی باتوں کی تصدیق کرنا معیوب بات نہیں۔
یہ آٹھواں عنوان ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے متکلم ہونے کو ثابت کررہے ہیں۔قبل ازیں اللہ تعالیٰ کا حضرت جبرئیل علیہ السلام اور دیگر فرشتوں سے ہم کلام ہوناثابت کیا تھا اور اس باب میں انبیاء علیہ السلام اوردیگر لوگوں سے ہم کلام ہونا ثابت کیاجائے گا۔
سیدنا عبداللہ (بن مسعود) ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: یہودیوں کا ایک عالم آیا اور(رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر) کہنے لگا: جب قیامت کا دن ہوگا تو اللہ تعالیٰ ایک انگلی پر آسمانوں کو، ایک انگلی پر زمین کو، ایک انگلی پر پانی اور کیچڑ کو، ایک انگلی پر دیگر تمام مخلوقات کو اٹھالے گا، پھر ان تمام کو حرکت دے گا اور کہے گا: میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ہنسنے لگے یہاں تک آپ کے دندان مبارک کھل گئے، آپ اس کی تصدیق اور ان باتوں پرتعجب کر رہے تھے۔ پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی: ”انہوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے۔۔۔۔۔۔ شریک ٹھہراتے ہیں۔“
حدیث حاشیہ:
1۔گویا سب معبودان باطلہ بھی اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہوں گے جنھیں آج یہ مشرک اللہ تعالیٰ کا ہمسر قرار دے رہے ہیں۔ اس حدیث میں بھی اللہ تعالیٰ کا کلام کرنا مذکورہ ہے کہ میں بادشاہ ہوں۔ بلا شبہ قیامت کے دن ایک وقت ایسا آئےگا۔ جب ہر ایک کو اپنی اپنی پڑی ہوگی۔ سب قیامت کی ہولنا کیوں سے دہشت زدہ ہوں گے۔ کسی کوکلام کرنے کی ہمت اور فرصت نہیں ہو گی۔ ہر طرف مکمل سکوت اور سناٹا چھایا ہوگا۔ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ سب کو مخاطب کر کے پوچھے گا ۔ ’’آج حکومت کس کی ہے؟ آج دنیا کے بادشاہ کہاں ہیں؟ جابر کہاں ہیں؟ متکبر کہاں ہیں؟ ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خود ہی فرمائے گا۔ آج بادشاہی صرف اکیلے اللہ کی ہے جو بہت دبدبے والا ہے۔‘‘ (المؤمن: 40۔16) 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنسی اس بات پر آئی کہ یہودی عالم اللہ تعالیٰ کی شان کس انداز سے بیان کر رہا ہے۔ حالانکہ یہود وہ قوم ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ کی قدر و منزلت کو کماحقہ نہیں سمجھا اور حضرت عزیر علیہ السلام کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا۔ 3۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل کتاب کی صحیح اور سچی باتوں کی تصدیق کرنا معیوب بات نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبیدہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ یہودیوں کا ایک عالم خدمت نبوی میں حاضر ہوا اور کہا کہ جب قیامت قائم ہو گی تو اللہ تعالیٰ آسمانوں کو ایک انگلی پر، زمین کو ایک انگلی پر، پانی اور کیچڑ کو ایک انگلی پر، اور تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر اٹھا لے گا اور پھر اسے ہلائے گا اور کہے گا میں بادشاہ ہوں، میں بادشاہ ہوں۔ میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ ہنسنے لگے یہاں تک کہ آپ کے دندان مبارک کھل گئے، اس بات کی تصدیق اور تعجب کرتے ہوئے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے یہ آیت پڑھی (مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ) انہوں نے اللہ کی شان کے مطابق قدر نہیں کی اللہ تعالیٰ کے ارشاد «يشركون» تک۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں بھی اللہ پاک کا کلام کرنا مذکور ہے۔ باب سے یہی مطابقت ہے۔ حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اہل کتاب کی سچی باتوں کی تصدیق کرنا کوئی معیوب بات نہیں ہے۔ آنحضرت ﷺ کو ہنسی اس بات پر آئی کہ ایک یہودی اللہ کی شان کس کس طورپربیان کر رہا ہے حالانکہ یہود وہ قوم ہے جس نےاللہ پاک کی قدرومتزلت کوکما حقہ نہیں سمجھا اورحضرت عزیرؑ کو خواہ مخواہ اللہ کا بیٹا بنا ڈالا حالانکہ اللہ پاک ایسے رشتوں ناطوں سےبہت ارفع واعلیٰ ہے۔ صدق لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Abdullah (RA) : A priest from the Jews came (to the Prophet) and said, "On the Day of Resurrection, Allah will place all the heavens on one finger, and the Earth on one finger, and the waters and the land on one finger, and all the creation on one finger, and then He will shake them and say. 'I am the King! I am the King!'" I saw the Prophet (ﷺ) smiling till his premolar teeth became visible expressing his amazement and his belief in what he had said. Then the Prophet (ﷺ) recited: 'No just estimate have they made of Allah such as due to Him (up to)...; High is He above the partners they attribute to Him.' (39.67)