کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: سورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا‘‘
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “…And to Musa (Moses) Allah spoke directly.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
7515.
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“
تشریح:
1۔معتزلہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ وہ اسے ہوا یا درخت میں پیدا کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام سنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کیا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اس میں رسالت اور کلام کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔ رسالت کے لیے کوئی فرشتہ وحی لاتا ہے اور کلام کرنا براہ راست ہوتا ہے ۔2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ’’حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تو ایسا رسول ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے پس پردہ براراست گفتگو کی۔ درمیان میں مخلوق وغیرہ کا کوئی واسطہ نہ تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702 و فتح الباري:618/11) 3۔بہر حال اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا صاف صاف اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بغیر واسطے کے جس سے چاہے جب چاہے کلام کر سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔ جو لوگ اس کی تاویلیں کرتے ہیں وہ درحقیقت صفت کلام کے انکار کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ (قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ)
اس آیت کریمہ میں مصدر فعل کی تاکید کے لیے ہے۔ اس انداز سے گفتگو کرنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے مجاز کا احتمال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ آیت کریمہ میں حقیقی کلام مراد ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود کلام نہیں کیا تھا بلکہ اس نے درخت میں کلام کو پیدا کیا تھا اور اسی درخت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کلام کو سنا تھا۔ یہ آیت اس موقف کی تردید کرتی ہے اور اس امر کی کی وضاحت کرتی ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ہی متکلم تھا۔یہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اس کے ساتھ قائم ہےاس کلام کو تلاوت کرنے والے کی تلاوت اور قاری کی قرآءت کے وقت سنا جاتا ہے اس آیت کریمہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وجہ فضیلت معلوم ہوتی ہےکہ خود اللہ تعالیٰ نے ان سے کسی بھی واسطے کے بغیر باتیں کیں۔ اگر اللہ تعالیٰ نے درخت میں بات کرنے کی قوت پیدا کردی تو اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کیا ہوئی؟ واللہ اعلم۔
سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”سیدنا آدم اور سیدنا موسیٰ ؑ نے آپس میں بحث کی۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے کہا: آپ وہی آدم ہیں ناں جنہوں نے اپنی اولاد کو جنت سے نکالا تھا؟ سیدنا آدم ؑ نے جواب دیا: آپ وہی موسیٰ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنی گفتگو سے شرف یاب کیا تھا پھر بھی آپ مجھے ایک ایسے امر کے سبب ملامت کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میرے لیے مقدر کر دیا تھا۔ چنانچہ سیدنا آدم ؑ سیدنا موسیٰ ؑ پر غالب آگئے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔معتزلہ کا خیال ہے کہ کلام اللہ تعالیٰ کی صفت نہیں بلکہ وہ اسے ہوا یا درخت میں پیدا کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے جو کلام سنا تھا وہ اللہ تعالیٰ نے درخت میں پیدا کیا تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔ اس میں رسالت اور کلام کو الگ الگ ذکر کیا ہے۔ رسالت کے لیے کوئی فرشتہ وحی لاتا ہے اور کلام کرنا براہ راست ہوتا ہے ۔2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت ان الفاظ میں نقل کی ہے۔ ’’حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا: تو ایسا رسول ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے پس پردہ براراست گفتگو کی۔ درمیان میں مخلوق وغیرہ کا کوئی واسطہ نہ تھا۔‘‘ (سنن أبي داود، السنة، حدیث: 4702 و فتح الباري:618/11) 3۔بہر حال اس حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ہم کلام ہونے کا صاف صاف اثبات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ بغیر واسطے کے جس سے چاہے جب چاہے کلام کر سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوا۔ جو لوگ اس کی تاویلیں کرتے ہیں وہ درحقیقت صفت کلام کے انکار کے لیے راستہ ہموار کرتے ہیں۔ (قَاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، کہا ہم سے حمید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا آدم ؑ اور موسیٰ ؑ نے بحث کی، موسیٰ ؑ نے کہا کہ آپ آدم ہیں جنہوں نے اپنی نسل کو جنت سے نکالا۔ آدم ؑ نے کہا کہ آپ موسیٰ ہیں جنہیں اللہ نے اپنے پیغام اور کلام کے لیے منتخب کیا اور پھر بھی آپ مجھے ایک ایسی بات کے لیے ملامت کرتے ہیں جو اللہ نے میری پیدائش سے پہلے ہی میری تقدیر میں لکھ دی تھی، چنانچہ آدم ؑ موسیٰ ؑ پر غالب آئے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت موسیٰ کے لیے کلام کا صاف اثبات ہے پس اس کی تاویل کرنے والے سراسر غلطی پرہیں۔ جب اللہ ہرچیز پر قادر ہے تو کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ وہ بلا توسط غیرے جس سے چاہے کلام کر سکے جیسا کہ حضرت موسیٰ سے کیا۔ یہ جہمیہ اورمعتزلہ کے خیال فاسد کی صریح تردید ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "Adam and Moses (ؑ) debated with each other and Moses (ؑ) said, 'You are Adam who turned out your offspring from Paradise.' Adam said, "You are Moses (ؑ) whom Allah chose for His Message and for His direct talk, yet you blame me for a matter which had been ordained for me even before my creation?' Thus Adam overcame Moses (ؑ)."