صحیح بخاری
98. کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
42. ۔ باب سورۂ رحمان میں اللہ تعالیٰ کافرمان ’’پروردگار ہردن ایک نیاکام کررہاہے
صحيح البخاري
98. كتاب التوحيد والرد علی الجهمية وغيرهم
42. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ} [الرحمن: 29]
Sahi-Bukhari
98. Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
42. Chapter: “….Every day He is in some affair!”
کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
۔ باب سورۂ رحمان میں اللہ تعالیٰ کافرمان ’’پروردگار ہردن ایک نیاکام کررہاہے
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “….Every day He is in some affair!”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور(سورۃ انبیاء میں)فرمایاکہ”ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آتا۔“اور اللہ تعالیٰ کا(سورۃ الطلاق میںفرمان”ممکن ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔“صرف اتنی بات ہے کہ اللہ کا کوئی نیا کام کرنا مخلوق کے نئے کام کرنے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے(سورۃ الشوری)میں فرمایا ہے”اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں، نہ صفات میں)اور وہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔“اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺکی یہ حدیث بیان کی کہ اللہ تعالیٰ جو نیا حکم چاہتا ہے دیتا ہے اور اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو۔تشریح:اس کو ابوداؤد نے وصل کیا ہے یہ باب لا کر امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کے صفات فعلیہ جیسے کلام کرنا ‘مارنا‘پیدا کرنا‘اترنا‘چڑھنا‘ہنسنا‘تعجب کرنا‘وقتاً فوقتاًحادث ہوتے رہتے ہیں اس طرح ہر ساعت اس پروردگار کے نئے نئے انتظامات نمود ہوتے رہتے ہیں نئے نئے احکام صادر ہوتے رہتے ہیں اور جن لوگوں نے صفات فعلیہ کا اس بنا پر انکار کیا ہے کہ وہ حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کا محل نہیں ہو سکتا ‘وہ بیوقوف ہیں قرآن حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ نئے نئے کام کرتا ہے نئے نئے احکام اتارتا رہتا ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر آیات باب میں پہلے یہ فرمایا کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے یہ تنزیہہ ہوئی پھر فرمایا وہ سنتا اور جانتا ہے یہ اس کی صفات کا اثبات ہوا اہلحدیث اس اعتقاد پر ہیں جو متوسط ہے درمیان تعطیل اور تشبیہ کے معطلہ تو جہمیہ اور معتزلہ ہیں جو اللہ اکی ان تمام صفات کا انکار کرتے ہیں جو مخلوق میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سننا ‘دیکھنا‘ بات کرنا وغیرہ اور مشبحہ مجسمہ ہیں جو اللہ پاک کی تمام صفات کو مخلوق سے مشابہت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی آدمی کی طرح گوشت پوست سے مرکب ہے ہماری طرح مترادف آنکھیں رکھتا ہے حالانکہ لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر اہل حدیث صفات باری کو کسی مخلوق سے مشابہت نہیں دیتے۔
7523.
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ کے متعلق کیوں پوچھتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی پر نازل کی ہے وہ اللہ کی ہاں سے بالکل تازہ آئی ہے۔ وہ خالص ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں خود بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو تبدیل اورمتغیر کر دیا ہے چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک کتاب لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی پونجی حاصل کر لیں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے جو تم سے اس کے متعلق دریافت کرے جو تم پر نازل ہوا ہے۔
اور (سورۃ انبیاء میں) فرمایا کہ ”ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نیا حکم نہیں آتا۔“ اور اللہ تعالیٰ کا (سورۃ الطلاق میں فرمان ”ممکن ہے کہ اللہ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔“ صرف اتنی بات ہے کہ اللہ کا کوئی نیا کام کرنا مخلوق کے نئے کام کرنے سے مشابہت نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الشوری) میں فرمایا ہے ”اس جیسی کوئی چیز نہیں (نہ ذات میں، نہ صفات میں) اور وہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔“ اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بیان کی کہ اللہ تعالیٰ جو نیا حکم چاہتا ہے دیتا ہے اور اس نے نیا حکم یہ دیا ہے کہ تم نماز میں باتیں نہ کرو۔تشریح:اس کو ابوداؤد نے وصل کیا ہے یہ باب لا کر امام بخاری نے یہ ثابت کیا ہے کہ اللہ کے صفات فعلیہ جیسے کلام کرنا ‘مارنا‘پیدا کرنا‘اترنا‘چڑھنا‘ہنسنا‘تعجب کرنا‘وقتاً فوقتاًحادث ہوتے رہتے ہیں اس طرح ہر ساعت اس پروردگار کے نئے نئے انتظامات نمود ہوتے رہتے ہیں نئے نئے احکام صادر ہوتے رہتے ہیں اور جن لوگوں نے صفات فعلیہ کا اس بنا پر انکار کیا ہے کہ وہ حادث ہیں اور اللہ تعالیٰ حوادث کا محل نہیں ہو سکتا ‘وہ بیوقوف ہیں قرآن حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ نئے نئے کام کرتا ہے نئے نئے احکام اتارتا رہتا ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر آیات باب میں پہلے یہ فرمایا کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے یہ تنزیہہ ہوئی پھر فرمایا وہ سنتا اور جانتا ہے یہ اس کی صفات کا اثبات ہوا اہلحدیث اس اعتقاد پر ہیں جو متوسط ہے درمیان تعطیل اور تشبیہ کے معطلہ تو جہمیہ اور معتزلہ ہیں جو اللہ اکی ان تمام صفات کا انکار کرتے ہیں جو مخلوق میں بھی پائے جاتے ہیں جیسے سننا ‘دیکھنا‘ بات کرنا وغیرہ اور مشبحہ مجسمہ ہیں جو اللہ پاک کی تمام صفات کو مخلوق سے مشابہت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بھی آدمی کی طرح گوشت پوست سے مرکب ہے ہماری طرح مترادف آنکھیں رکھتا ہے حالانکہ لیس کمثلہ شئی وھو السمیع البصیر اہل حدیث صفات باری کو کسی مخلوق سے مشابہت نہیں دیتے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ کے متعلق کیوں پوچھتے ہو؟ حالانکہ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی پر نازل کی ہے وہ اللہ کی ہاں سے بالکل تازہ آئی ہے۔ وہ خالص ہے۔ اس میں کوئی ملاوٹ نہیں نیز اللہ تعالیٰ نے تمہیں خود بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو تبدیل اورمتغیر کر دیا ہے چنانچہ وہ اپنے ہاتھوں سے ایک کتاب لکھتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے سے تھوڑی سی پونجی حاصل کر لیں۔ کیا تمہارے پاس جو علم آیا ہے وہ تمہیں ان سے سوال کرنے سے منع نہیں کرتا؟ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے جو تم سے اس کے متعلق دریافت کرے جو تم پر نازل ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا کوئی نیا کام کرنا مخلوق کے نئے کام سے مشابہت نہیں رکھتا کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ا ”س جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔“ ¤سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کہ کوئی نیا حکم دیتا ہے اور اس نے نیان حکم یہ دیا ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو۔“¤
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ اے مسلمانو! تم اہل کتاب سے کسی مسئلہ میں کیوں پوچھتے ہو۔ تمہاری کتاب جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ پر نازل کی ہے وہ اللہ کے یہاں سے بالکل تازہ آئی ہے، خالص ہے اس میں کوئی ملاوٹ نہیں ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے خود تمہیں بتا دیا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتابوں کو بدل ڈالا۔ وہ ہاتھ سے ایک کتاب لکھتے اور دعویٰ کرتے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے تھوڑی پونچی حاصل کریں، تم کو جو اللہ نے قرآن و حدیث کا علم دیا ہے کیا وہ تم کو اس سے منع نہیں کرتا کہ تم دین کی باتیں اہل کتاب سے پوچھو۔ اللہ کی قسم! ہم تو ان کے کسی آدمی کو نہیں دیکھتے کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل ہوا ہے اس کے متعلق وہ تم سے پوچھتے ہوں۔
حدیث حاشیہ:
اہل کتاب کی کتابیں پرانی اورمخلوط ہو چکی ہیں پھر تم کو کیا خبط ہو گیا ہے کہ تم ان سے پوچھتے ہو حالانکہ اکر وہ تم سے پوچھتے تو ایک بات تھی کیونکہ تمہاری کتاب بالکل مخفوظ اور نئی نازل ہوئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ubaidullah bin ' Abdullah (RA) : 'Abdullah bin 'Abbas (RA) said, "O the group of Muslims! How can you ask the people of the Scriptures about anything while your Book which Allah has revealed to your Prophet (ﷺ) contains the most recent news from Allah and is pure and not distorted? Allah has told you that the people of the Scriptures have changed some of Allah's Books and distorted it and wrote something with their own hands and said, 'This is from Allah, so as to have a minor gain for it. Won't the knowledge that has come to you stop you from asking them? No, by Allah, we have never seen a man from them asking you about that (the Book Al-Qur'an) which has been revealed to you.