کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید
(
باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المعارج میں ) فرمان کہ آدم زاد دل کا کچا پیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر کوئی مصیبت آئی تو آہ و زاری کرنے لگ جاتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Oneness, Uniqueness of Allah (Tawheed)
(Chapter: “Verily, man was created very impatient. Irritable when evil touches him. And niggardly when good touches him.”)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
هلوعابمعنیضجورابےصبرا۔ اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے ویسے ہی اس کی صفات اور اخلاق کا بھی خالق ہے اور جب صفات و اخلاق کا بھی خالق خدا ہوا تو اس کے افعال کا بھی خالق وہی ہوگااور معتزلہ کا رد ہو
7535.
سیدنا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ اس تقسیم پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ نےفرمایا: ”میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہوں اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ جن لوگوں کو دیتا ہوں وہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔“ (یہ سن کر) سیدنا عمرو بن تغلب ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ کے کلمہ تحسین کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو میں انہیں ہرگز پسند نہ کرتا۔
تشریح:
1۔اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اس کی صفات واخلاق اور کردار کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔ جب وہ صفات واخلاق کا خالق ہے تو اس کے افعال واعمال کا بھی وہی خالق ہوگا۔ قراءت جو قاری کا عمل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کیا ہوا ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔ اس اعتبار سے یہ حضرات اللہ (وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ) کے ساتھ شریک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 2۔پیش کی گئی آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کی کثرت سے انسان کی طبیعت میں فیاضی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بخل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی بے ثباتی، بے قراری اور گھبراہٹ کو ختم کرنے کا فطری طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے، چنانچہ اگلی آٹھ آیات میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اہل ایمان کی طبیعت میں اطمینان وسکون اور ٹھراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔
هلوعا بمعنی ضجورا بےصبرا۔ اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے ویسے ہی اس کی صفات اور اخلاق کا بھی خالق ہے اور جب صفات و اخلاق کا بھی خالق خدا ہوا تو اس کے افعال کا بھی خالق وہی ہوگااور معتزلہ کا رد ہو
حدیث ترجمہ:
سیدنا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ اس تقسیم پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ نےفرمایا: ”میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہوں اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ جن لوگوں کو دیتا ہوں وہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔“ (یہ سن کر) سیدنا عمرو بن تغلب ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ کے کلمہ تحسین کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو میں انہیں ہرگز پسند نہ کرتا۔
حدیث حاشیہ:
1۔اس عنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے، اس کی صفات واخلاق اور کردار کا بھی پیدا کرنے والا ہے۔ جب وہ صفات واخلاق کا خالق ہے تو اس کے افعال واعمال کا بھی وہی خالق ہوگا۔ قراءت جو قاری کا عمل ہے وہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کیا ہوا ہے جبکہ معتزلہ کہتے ہیں کہ انسان اپنے اعمال کا خود خالق ہے۔ اس اعتبار سے یہ حضرات اللہ (وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ) کے ساتھ شریک کے مرتکب ہوتے ہیں۔ 2۔پیش کی گئی آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مال کی کثرت سے انسان کی طبیعت میں فیاضی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس کے بخل میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ اس کی بے ثباتی، بے قراری اور گھبراہٹ کو ختم کرنے کا فطری طریقہ بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے، چنانچہ اگلی آٹھ آیات میں ایسے اعمال کا ذکر ہے جن سے اس کی اصلاح ہوجاتی ہے اور اہل ایمان کی طبیعت میں اطمینان وسکون اور ٹھراؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ واللہ المستعان۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے عمرو بن تغلب ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے پاس مال آیا اور آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہیں دیا۔ پھر نبی کریم ﷺ کو معلوم ہوا کہ اس پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو نہیں دیتا اور جسے نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ میں کچھ لوگوں کو اس لیے دیتا ہوں کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہے اور دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ انہیں میں سے عمرو بن تغلب بھی ہیں۔ عمرو ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے اس کلمہ کے مقابلہ میں مجھے لال لال اونٹ ملتے تو اتنی خوشی نہ ہوتی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Hasan: 'Amr bin Taghlib said, "Some property was given to the Prophet (ﷺ) and he gave it to some people and withheld it from some others. Then he came to know that they (the latter) were dissatisfied. So the Prophet (ﷺ) said, 'I give to one man and leave (do not give) another, and the one to whom I do not give is dearer to me than the one to whom I give. I give to some people because of the impatience and discontent present in their hearts, and leave other people because of the content and goodness Allah has bestowed on them, and one of them is 'Amr bin Taghlib." 'Amr bin Taghlib said, "The sentence which Allah's Apostle (ﷺ) said in my favor is dearer to me than the possession of nice red camels."