قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

‌صحيح البخاري: كِتَابُ التَّوْحِيدِ وَالرَدُّ عَلَی الجَهمِيَةِ وَغَيرٌهُم (بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا، إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا، وَإِذَا مَسَّهُ الخَيْرُ مَنُوعًا} [المعارج: 20] ")

حکم : أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

ترجمة الباب: هَلُوعًا: ضَجُورًا "

7535 .   حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ الْحَسَنِ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَالٌ فَأَعْطَى قَوْمًا وَمَنَعَ آخَرِينَ فَبَلَغَهُ أَنَّهُمْ عَتَبُوا فَقَالَ إِنِّي أُعْطِي الرَّجُلَ وَأَدَعُ الرَّجُلَ وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ الَّذِي أُعْطِي أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا فِي قُلُوبِهِمْ مِنْ الْجَزَعِ وَالْهَلَعِ وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنْ الْغِنَى وَالْخَيْرِ مِنْهُمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ فَقَالَ عَمْرٌو مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُمْرَ النَّعَمِ

صحیح بخاری:

کتاب: اللہ کی توحید اس کی ذات اور صفات کے بیان میں اور جهميہ وغیرہ کی تردید

 

تمہید کتاب  (

باب: اللہ تعالیٰ کا ( سورۃ المعارج میں ) فرمان کہ آدم زاد دل کا کچا پیدا کیا گیا ہے ، جب اس پر کوئی مصیبت آئی تو آہ و زاری کرنے لگ جاتا ہے اور جب راحت ملتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔

)
 

مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)

ترجمۃ الباب:

هلوعا‏ بمعنی  ضجورا‏ بےصبرا۔  اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ انسان کا خالق ہے ویسے ہی اس کی صفات اور اخلاق کا  بھی خالق ہے اور جب صفات و اخلاق کا بھی خالق خدا ہوا تو اس کے افعال کا بھی خالق وہی ہوگااور معتزلہ کا رد ہو

7535.   سیدنا عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے اس میں سے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ اس کے بعد آپ کو معلوم ہوا کہ اس تقسیم پر کچھ لوگ ناراض ہوئے ہیں تو آپ نےفرمایا: ”میں ایک شخص کو دیتا ہوں اور دوسرے کو چھوڑ دیتا ہوں اور جسے میں نہیں دیتا وہ مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے جسے دیتا ہوں۔ جن لوگوں کو دیتا ہوں وہ اس لیے کہ ان کے دلوں میں گھبراہٹ اور بے چینی ہوتی ہے، جبکہ دوسرے لوگوں پر اعتماد کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو بے نیازی اور بھلائی عطا فرمائی ہے۔ ان میں عمرو بن تغلب بھی ہیں۔“ (یہ سن کر) سیدنا عمرو بن تغلب ؓ نے کہا: رسول اللہﷺ کے کلمہ تحسین کے مقابلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملتے تو میں انہیں ہرگز پسند نہ کرتا۔