Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To put the hands (palms) on both knees while bowing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوحمید نے اپنے ساتھیوں کے سامنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر جمائے۔
790.
حضرت مصعب بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اپنے بھائی (حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ) کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر اپنی رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ مجھے میرے والد نے اس فعل سے منع فرمایا اور کہا کہ ہم پہلے ایسا کیا کرتے تھے پھر ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ (دوران رکوع میں) اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھا کریں۔
تشریح:
(1) سنن دارمی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے بیٹوں نے نماز پڑھی تو رکوع کے وقت انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں کے درمیان رکھا۔ حضرت مصعب نے جب اس طرح نماز پڑھی تو ان کے باپ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ان کے ہاتھوں پر مارا، پھر حقیقتِ حال کی وضاحت فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب نے یہ طریقۂ نماز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے بیٹوں سے سیکھا اور بیٹوں نے اپنے والد گرامی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے حاصل کیا۔ (2) امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں کہ تطبیق اب منسوخ ہو چکی ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شاید حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو اس کا نسخ نہ پہنچا ہو۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ بحالت رکوع ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑا جائے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تطبیق یہود کا فعل ہے اور ابتدا میں رسول اللہ ﷺ کو یہود کی موافقت پسند تھی، بعد میں اس سے منع کر دیا گیا۔ (فتح الباري:355/2) ممکن ہے کہ پہلے پہلے تطبیق کا فعل یہود کی موافقت کرتے ہوئے کیا ہو، اس کے بعد جب مخالفت کا حکم ہوا تو اس سے منع کر دیا گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
781
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
790
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
790
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
790
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دوران رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک دوسری میں داخل کر کے اپنی رانوں کے درمیان رکھتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ عنوان قائم کر کے ثابت کیا ہے کہ یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے جیسا کہ آئندہ وضاحت ہو گی۔ مذکورہ معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح (رقم: 828) ہی میں متصل سند سے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور اس پر سنة الجلوس في التشهد کا عنوان قائم کیا ہے۔
اور ابوحمید نے اپنے ساتھیوں کے سامنے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے رکوع میں اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں پر جمائے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت مصعب بن سعد سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اپنے بھائی (حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ) کے پہلو میں نماز پڑھی تو میں نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر اپنی رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ مجھے میرے والد نے اس فعل سے منع فرمایا اور کہا کہ ہم پہلے ایسا کیا کرتے تھے پھر ہمیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ (دوران رکوع میں) اپنے ہاتھ گھٹنوں پر رکھا کریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) سنن دارمی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے بیٹوں نے نماز پڑھی تو رکوع کے وقت انہوں نے اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں کے درمیان رکھا۔ حضرت مصعب نے جب اس طرح نماز پڑھی تو ان کے باپ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے ان کے ہاتھوں پر مارا، پھر حقیقتِ حال کی وضاحت فرمائی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مصعب نے یہ طریقۂ نماز حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے بیٹوں سے سیکھا اور بیٹوں نے اپنے والد گرامی حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے حاصل کیا۔ (2) امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں کہ تطبیق اب منسوخ ہو چکی ہے۔ اہل علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ شاید حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو اس کا نسخ نہ پہنچا ہو۔ حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: سنت یہ ہے کہ بحالت رکوع ہاتھوں سے گھٹنوں کو پکڑا جائے۔ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ تطبیق یہود کا فعل ہے اور ابتدا میں رسول اللہ ﷺ کو یہود کی موافقت پسند تھی، بعد میں اس سے منع کر دیا گیا۔ (فتح الباري:355/2) ممکن ہے کہ پہلے پہلے تطبیق کا فعل یہود کی موافقت کرتے ہوئے کیا ہو، اس کے بعد جب مخالفت کا حکم ہوا تو اس سے منع کر دیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوحمید ساعدی ؓ نے اپنے شاگردوں سے بیان کیا ہے کہ نبی ﷺ(بحالت رکوع) اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر خوب جما کر رکھتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ابویعفور اکبر سے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے مصعب بن سعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد کے پہلو میں نماز پڑھی اور اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ملا کر رانوں کے درمیان رکھ لیا۔ اس پر میرے باپ نے مجھے ٹوکا اور فرمایا کہ ہم بھی پہلے اسی طرح کرتے تھے۔ لیکن بعد میں اس سے روک دئیے گئے اور حکم ہوا کہ ہم اپنے ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے رکوع میں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ملا کر دونوں رانوں کے بیچ میں رکھنا منقول ہے۔ حضرت امام بخاری ؒ نے یہ باب لاکر اشارہ فرمایا کہ یہ حکم منسوخ ہو گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Mus'ab bin Sa'd (RA): I offered prayer beside my father and approximated both my hands and placed them in between the knees. My father told me not to do so and said, "We used to do the same but we were forbidden (by the Prophet) to do it and were ordered to place the hands on the knees."