باب:جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتواس کے لئے سفر کرنا(کیساہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To travel seeking an answer to a problematic matter, and to teach it to one's family)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
88.
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس کی بیوی کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا: مجھے تو علم نہیں کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ پہلے تو نے اس کی خبر دی۔ پھر حضرت عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آ گئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(تو اس عورت سے) کیسے (صحبت کرے گا) جب کہ ایسی بات کہی گئی ہے؟‘‘ آخر عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔
تشریح:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آ جائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا اور اس کےلیے سفر کرنا ضروری ہے، اپنے نظریے کے مطابق عمل کرلینا درست نہیں۔ 2۔ اس حدیث سے ان شبہات کی وضاحت ہوتی ہے جن سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق شبہ پڑ جائے تو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے۔ بعض حضرات نے اس مقام پر فتویٰ اور تقویٰ کی بحث کو چھیڑا ہے، یعنی فتویٰ تو یہی ہے کہ ایک عورت کی گواہی سے بیوی خاوند کے درمیان تفریق نہ کرائی جائے، البتہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اب انھیں اکٹھا نہیں رہنا چاہیے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی سے تفریق کا فتویٰ صادر فرمایا۔اس کی مکمل وضاحت کتاب الرضاعہ میں آئے گی۔ 3۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس عورت سے شادی کی تھی اس کا نام ام یحییٰ غنیۃ تھا جو ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی تھی اورتفریق کے بعد اس نے ظریب بن حارث سےشادی کر لی تھی اور جس عورت نے دودھ کے متعلق گواہی دی اس کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ (فتح الباري: 244/1)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
88
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
88
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
88
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
88
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
تمہید باب
اگر ہنگامی طور پر کوئی مسئلہ سامنے آجائے جس کا حکم معلوم نہ ہو اور وہاں کوئی بتانے والا بھی موجود نہ ہوتوایسی صورت میں اپنے گمان کے مطابق عمل کرے یا دریافت طلب امر کے لیے سفر کرے؟امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کارجحان ہے کہ ایسےحالات میں سفر کرنا ہوگا۔
حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ اور اس کی بیوی کو دودھ پلایا ہے۔ حضرت عقبہ نے کہا: مجھے تو علم نہیں کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ پہلے تو نے اس کی خبر دی۔ پھر حضرت عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کے پاس مدینہ منورہ آ گئے اور آپ سے مسئلہ پوچھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’(تو اس عورت سے) کیسے (صحبت کرے گا) جب کہ ایسی بات کہی گئی ہے؟‘‘ آخر عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور اس نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی ایسی صورتحال سامنے آ جائے جس کا حکم معلوم نہ ہو تو اس کے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا اور اس کےلیے سفر کرنا ضروری ہے، اپنے نظریے کے مطابق عمل کرلینا درست نہیں۔ 2۔ اس حدیث سے ان شبہات کی وضاحت ہوتی ہے جن سے اجتناب کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی چیز کے متعلق شبہ پڑ جائے تو اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے۔ بعض حضرات نے اس مقام پر فتویٰ اور تقویٰ کی بحث کو چھیڑا ہے، یعنی فتویٰ تو یہی ہے کہ ایک عورت کی گواہی سے بیوی خاوند کے درمیان تفریق نہ کرائی جائے، البتہ تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اب انھیں اکٹھا نہیں رہنا چاہیے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کی گواہی سے تفریق کا فتویٰ صادر فرمایا۔اس کی مکمل وضاحت کتاب الرضاعہ میں آئے گی۔ 3۔ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس عورت سے شادی کی تھی اس کا نام ام یحییٰ غنیۃ تھا جو ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی تھی اورتفریق کے بعد اس نے ظریب بن حارث سےشادی کر لی تھی اور جس عورت نے دودھ کے متعلق گواہی دی اس کا نام معلوم نہیں ہوسکا۔ (فتح الباري: 244/1)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھیں عبداللہ نے خبر دی، انھیں عمر بن سعید بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے عقبہ ابن الحارث کے واسطے سے نقل کیا کہ عقبہ نے ابواہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا تو ان کے پاس ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ میں نے عقبہ کو اور جس سے اس کا نکاح ہوا ہے، اس کو دودھ پلایا ہے۔ (یہ سن کر) عقبہ نے کہا، مجھے نہیں معلوم کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے کبھی مجھے بتایا ہے۔ تب عقبہ سوار ہو کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوئے اور آپ سے اس کے متعلق دریافت کیا، تو آپ ﷺ نے فرمایا، کس طرح (تم اس لڑکی سے رشتہ رکھو گے) حالانکہ (اس کے متعلق یہ) کہا گیا تب عقبہ بن حارث نے اس لڑکی کو چھوڑ دیا اور اس نے دوسرا خاوند کر لیا۔
حدیث حاشیہ:
عقبہ بن حارث نے احتیاطاً اسے چھوڑدیا کیونکہ جب شبہ پیدا ہو گیا تو اب شبہ کی چیز سے بچنا ہی بہتر ہے۔ مسئلہ معلوم کرنے کے لیے حضرت عقبہ کا سفر کر کے مدینہ جانا ترجمۃ الباب کا یہی مقصد ہے۔ اسی بنا پر محدثین نے طلب حدیث کے سلسلہ میں جو جوسفر کئے ہیں وہ طلب علم کے لیے بے مثال سفر ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً عقبہ کی جدائی کرا دی۔ اس سے ثابت ہوا کہ احتیاط کا پہلو بہرحال مقدم رکھنا چاہیے یہ بھی ثابت ہوا کہ رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Abi Mulaika (RA): 'Uqba bin Al-Harith said that he had married the daughter of Abi Ihab bin 'Aziz. Later on a woman came to him and said, "I have suckled (nursed) Uqba and the woman whom he married (his wife) at my breast." 'Uqba said to her, "Neither I knew that you have suckled (nursed) me nor did you tell me." Then he rode over to see Allah's Apostle (ﷺ) at Medina, and asked him about it. Allah's Apostle (ﷺ) said, "How can you keep her as a wife when it has been said (that she is your foster-sister)?" Then Uqba divorced her, and she married another man.