باب: جمعہ کے دن عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنے جو اس کو مل سکے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To wear the best clothes (for the Jumu'ah prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
886.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔
تشریح:
(1) اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ اسے جمعے کے دن زیب تن کیا کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس پہننا رائج تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اس کے خریدنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ دوسری حدیث سے جمعے کے دن اچھا لباس پہننے کی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعے کے دن رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کتنا اچھا ہو اگر تم لوگ محنت و مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے دو کپڑے اور خرید لو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1078) (2) حضرت عمر ؓ نے اپنے مادری بھائی عثمان بن حکیم کو ریشمی حلہ بطور تحفہ دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مشرک کو ریشمی لباس بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفار فروعی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔ اس کے متعلق علمائے امت کے تین اقوال ہیں: ٭ کفار فروعی احکام کی ادائیگی و اعتقاد کے لحاظ سے مکلف ہیں اور انہیں قیامت کے دن ترک ایمان و عمل کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ ٭ فروعی مسائل کے اعتقاد اور ادائیگی کے لحاظ سے مخاطب نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں صرف ترک ایمان کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔ ٭ اعتقاد مخاطب ہیں، ادائیگی کے لحاظ سے مکلف نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ ترک ایمان اور فروعات کے متعلق ترک اعتقاد کے باعث ہو گا۔ محدثین کے نزدیک کفار ایمان کے علاوہ فروعی مسائل کے بھی اداء و اعتقاد مکلف ہیں۔ (3) اس حدیث میں ہے کہ ریشمی لباس پہننے والا قیامت کے دن اس سے محروم ہو گا۔ یہ محرومی اس اعتبار سے ہو گی کہ انہیں ریشمی لباس پہننے کا خیال تو آئے گا لیکن انہیں اس سے محروم ہونا پڑے گا، یعنی وہ اس کی خواہش نہیں کریں گے اور جنت میں ہر چیز ملنے کا وعدہ اہل جنت کی خواہش پر موقوف ہو گا، جس طرح اہل جنت اپنے سے اعلیٰ مراتب والوں کے مرتبہ و مقام کی طلب و خواہش نہیں کریں گے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾(حٰم السجدة:31:41)’’اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تمہارے جی چاہیں گے اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تم مانگو گے۔‘‘ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی محرومی کو بعض حضرات نے حقیقت پر محمول کیا ہے، خواہ انہوں نے توبہ ہی کیوں نہ کر لی ہو مگر اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد فوت ہو گا تو جنت میں اس قسم کی نعمتوں سے محروم نہیں رہے گا۔ (عمدة القاري:29/6)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
875
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
886
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
886
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
886
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اسے خرید لیں تو اچھا ہے تاکہ جمعہ اور سفیروں کی آمد کے وقت اسے زیب تن فر لیا کریں؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے تو وہ شخص پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔‘‘ اس کے بعد کہیں سے رسول اللہ ﷺ کے پاس اس قسم کے ریشمی جوڑے آ گئے۔ ان میں سے آپ نے ایک جوڑا عمر ؓ کو بھی دیا۔ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے یہ جوڑا عنایت فرمایا ہے، حالانکہ آپ خود ہی حلہ عطارد کے متعلق کچھ فرما چکے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں یہ اس لیے نہیں دیا کہ اسے خود پہنو۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر ؓ نے وہ جوڑا اپنے مشرک بھائی کو پہنچا دیا جو مکہ مکرمہ میں رہائش پذیر تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کی باب سے مطابقت ظاہر ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا تاکہ رسول اللہ ﷺ اسے جمعے کے دن زیب تن کیا کریں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن اچھا لباس پہننا رائج تھا اور رسول اللہ ﷺ نے اس خواہش پر کوئی انکار نہیں فرمایا۔ چونکہ وہ ریشم کا تھا، اس لیے آپ اس کے خریدنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ دوسری حدیث سے جمعے کے دن اچھا لباس پہننے کی رہنمائی ملتی ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن سلام ؓ سے روایت ہے، انہوں نے جمعے کے دن رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’کتنا اچھا ہو اگر تم لوگ محنت و مزدوری کے کپڑوں کے علاوہ جمعہ کے دن کے لیے دو کپڑے اور خرید لو۔‘‘ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1078) (2) حضرت عمر ؓ نے اپنے مادری بھائی عثمان بن حکیم کو ریشمی حلہ بطور تحفہ دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کافر و مشرک کو ریشمی لباس بطور ہدیہ دیا جا سکتا ہے، نیز اس سے پتہ چلتا ہے کہ کفار فروعی احکام کے مکلف نہیں ہیں۔ اس کے متعلق علمائے امت کے تین اقوال ہیں: ٭ کفار فروعی احکام کی ادائیگی و اعتقاد کے لحاظ سے مکلف ہیں اور انہیں قیامت کے دن ترک ایمان و عمل کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ ٭ فروعی مسائل کے اعتقاد اور ادائیگی کے لحاظ سے مخاطب نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں صرف ترک ایمان کی وجہ سے سزا دی جائے گی۔ ٭ اعتقاد مخاطب ہیں، ادائیگی کے لحاظ سے مکلف نہیں ہیں۔ قیامت کے دن انہیں جو عذاب دیا جائے گا وہ ترک ایمان اور فروعات کے متعلق ترک اعتقاد کے باعث ہو گا۔ محدثین کے نزدیک کفار ایمان کے علاوہ فروعی مسائل کے بھی اداء و اعتقاد مکلف ہیں۔ (3) اس حدیث میں ہے کہ ریشمی لباس پہننے والا قیامت کے دن اس سے محروم ہو گا۔ یہ محرومی اس اعتبار سے ہو گی کہ انہیں ریشمی لباس پہننے کا خیال تو آئے گا لیکن انہیں اس سے محروم ہونا پڑے گا، یعنی وہ اس کی خواہش نہیں کریں گے اور جنت میں ہر چیز ملنے کا وعدہ اہل جنت کی خواہش پر موقوف ہو گا، جس طرح اہل جنت اپنے سے اعلیٰ مراتب والوں کے مرتبہ و مقام کی طلب و خواہش نہیں کریں گے۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ ﴿٣١﴾(حٰم السجدة:31:41)’’اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تمہارے جی چاہیں گے اور اس میں تمہارے لیے وہ (سب کچھ) ہے جو تم مانگو گے۔‘‘ علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ اس قسم کے لوگوں کی محرومی کو بعض حضرات نے حقیقت پر محمول کیا ہے، خواہ انہوں نے توبہ ہی کیوں نہ کر لی ہو مگر اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ اگر انسان توبہ کرنے کے بعد فوت ہو گا تو جنت میں اس قسم کی نعمتوں سے محروم نہیں رہے گا۔ (عمدة القاري:29/6)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن عمر ؓ نے کہ عمر بن خطاب ؓ نے (ریشم کا) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب ؓ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ حضرت عمر ؓ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
تشریح : عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی ؓ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیا گیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی خدمت شریف میں حضرت عمر ؓ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت ﷺ نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): Umar bin Al-Khattab (RA) saw a silken cloak (being sold) at the gate of the Mosque and said to Allah's Apostle, "I wish you would buy this to wear on Fridays and also on occasions of the arrivals of the delegations." Allah's Apostle (ﷺ) replied, "This will be worn by a person who will have no share (reward) in the Hereafter." Later on similar cloaks were given to Allah's Apostle (ﷺ) and he gave one of them to 'Umar bin Al-Khattab (RA). On that 'Umar said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! You have given me this cloak although on the cloak of Atarid (a cloak merchant who was selling that silken cloak at the gate of the mosque) you passed such and such a remark." Allah's Apostle (ﷺ) replied, "I have not given you this to wear". And so 'Umar bin Al-Khattab (RA) gave it to his pagan brother in Makkah to wear.