Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To offer Jumu'ah prayer and Khutba in villages and towns)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
892.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں شروع ہوا جو ملک بحرین کے جواثیٰ مقام میں تھی۔
تشریح:
(1) واضح رہے کہ "جواثی" بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371 وسنن أبي داود، حدیث:1068) حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نماز جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہاتوں میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں جن میں سرفہرست احناف ہیں۔ جن کی دلیل ابن ابی شیبہ (535/2) میں منقول سیدنا علی ؓ کا موقوف اثر ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ (537/2) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے اہل بحرین کو لکھا تھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اقامت جمعہ کا اہتمام کرو۔ یہ عموم شہروں اور دیہاتوں دونوں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ حضرت لیث بن سعد ؓ سے بھی مروی ہے کہ وہ ہر شہر اور دیہات جہاں اہل اسلام کے چند افراد ہوں اقامت جمعہ کے قائل تھے، چنانچہ اہل مصر اور اس کے آس پاس رہنے والے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور وہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔ (فتح الباري:489/2) (2) بعض مؤرخین نے "جواثی" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آبادی ایک شہر پر مشتمل تھی جبکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے ایک دوسرے مقام پر اس کے دیہات ہونے کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371) یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جمعہ پڑھنے کا اہتمام ہوا تو یہ ایک گاؤں تھا پھر آبادی کے بڑھنے سے ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (فتح الباري:489/2) واضح رہے کہ قبیلۂ عبدالقیس نے وہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم ہی سے اقامت جمعہ کا اہتمام کیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی طرف سے نزول وحی کے زمانے میں کسی شرعی کام کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ اگر یہ اقدام ناجائز ہوتا تو بذریعۂ وحی ضرور انہیں متنبہ کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) کے علاقے میں بنو بیاضہ کی بستی (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) میں جمعہ قائم کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1069) یہ بستی مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی سب سے بڑی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾(الجمعة:9:62)’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خریدوفروخت کو ترک کر دو۔‘‘ یہ آیت کریمہ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے، خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ الغرض اسلام نے جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی پابندی نہیں لگائی۔ اس کے متعلق جو شرائط بیان کی جاتی ہے وہ سب خود ساختہ ہیں۔ اقامت جمعہ کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے، فرماتے ہیں، اہل علم نے اقامت جمعہ کے محل کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا خیال ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں اور دیہاتوں غرضیکہ ہر جگہ جائز اور صحیح ہے۔ امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جمعہ اور عید صرف مصر جامع میں صحیح ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن حزم نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے، یعنی یہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کی کافی گنجائش ہے، اس لیے اس روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، نیز اس روایت سے سورۂ جمعہ کی آیت جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے جو اصول کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مرعاة المفاتیح:288/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
881
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
892
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
892
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
892
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
بعض لوگ انعقاد جمعہ کے لیے خود ساختہ شرائط عائد کرتے ہیں، یعنی مخصوص عدد، مخصوص جگہ یا مخصوص امام کی تعیین کی شرط لگاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کے لیے اس قسم کی غیر شرعی شرائط لگانا درست نہیں کیونکہ یہ عام نمازوں کی طرح ہے۔ کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ نماز جمعہ دیگر نمازوں سے ممتاز اور الگ حیثیت رکھتی ہے۔ مذکورہ عنوان میں امام بخاری رحمہ اللہ نے انعقاد جمعہ کے لیے مخصوص جگہ کی شرط کو غیر شرعی ثابت کیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں شروع ہوا جو ملک بحرین کے جواثیٰ مقام میں تھی۔
حدیث حاشیہ:
(1) واضح رہے کہ "جواثی" بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371 وسنن أبي داود، حدیث:1068) حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نماز جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہاتوں میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں جن میں سرفہرست احناف ہیں۔ جن کی دلیل ابن ابی شیبہ (535/2) میں منقول سیدنا علی ؓ کا موقوف اثر ہے۔ اس کے برعکس حضرت عمر ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ (537/2) میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے اہل بحرین کو لکھا تھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اقامت جمعہ کا اہتمام کرو۔ یہ عموم شہروں اور دیہاتوں دونوں کو شامل ہے۔ اس کے علاوہ حضرت لیث بن سعد ؓ سے بھی مروی ہے کہ وہ ہر شہر اور دیہات جہاں اہل اسلام کے چند افراد ہوں اقامت جمعہ کے قائل تھے، چنانچہ اہل مصر اور اس کے آس پاس رہنے والے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور وہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہوا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔ (فتح الباري:489/2) (2) بعض مؤرخین نے "جواثی" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آبادی ایک شہر پر مشتمل تھی جبکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے ایک دوسرے مقام پر اس کے دیہات ہونے کی صراحت کی ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث:4371) یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جمعہ پڑھنے کا اہتمام ہوا تو یہ ایک گاؤں تھا پھر آبادی کے بڑھنے سے ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔ (فتح الباري:489/2) واضح رہے کہ قبیلۂ عبدالقیس نے وہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم ہی سے اقامت جمعہ کا اہتمام کیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی طرف سے نزول وحی کے زمانے میں کسی شرعی کام کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔ اگر یہ اقدام ناجائز ہوتا تو بذریعۂ وحی ضرور انہیں متنبہ کر دیا جاتا۔ اس کے علاوہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) کے علاقے میں بنو بیاضہ کی بستی (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی) میں جمعہ قائم کیا تھا۔ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث:1069) یہ بستی مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔ دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی سب سے بڑی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾(الجمعة:9:62)’’اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خریدوفروخت کو ترک کر دو۔‘‘ یہ آیت کریمہ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے، خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ الغرض اسلام نے جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی پابندی نہیں لگائی۔ اس کے متعلق جو شرائط بیان کی جاتی ہے وہ سب خود ساختہ ہیں۔ اقامت جمعہ کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے، فرماتے ہیں، اہل علم نے اقامت جمعہ کے محل کے متعلق اختلاف کیا ہے۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا خیال ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں اور دیہاتوں غرضیکہ ہر جگہ جائز اور صحیح ہے۔ امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جمعہ اور عید صرف مصر جامع میں صحیح ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام ابن حزم نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے، یعنی یہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔ چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کی کافی گنجائش ہے، اس لیے اس روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، نیز اس روایت سے سورۂ جمعہ کی آیت جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے جو اصول کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مرعاة المفاتیح:288/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے ابو جمرہ نضر بن عبد الرحمن ضبعی نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بن و عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The first Jumua prayer which was offered after a Jumua prayer offered at the mosque of Allah's Apostle (ﷺ) took place in the mosque of the tribe of 'Abdul Qais at Jawathi in Bahrain.