باب: جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Is the bath necessary for those who do not present themselves for the Jumu'ah prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا غسل اسی کو واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے۔
898.
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرے۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ جہاں روایات مختلف ہوں یا کسی مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہو وہاں کوئی حکم لگانے کے بجائے لفظ "هل" سے اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، چنانچہ جمعہ کے دن غسل کے متعلق وہ قسم کی روایات ہیں: ایک روایت یہ ہے کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل کرنا ضروری ہے، خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جمعہ صرف نماز پڑھنے والے کے لیے ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ ان دونوں روایات کے عموم میں تعارض ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ "هل" سے اسی تعارض کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پھر اختلاف روایات کی بنا پر اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ غسل نماز جمعہ کے لیے ہے یا یوم جمعہ کے لیے۔ پھر ایک تیسری روایت بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے، گویا الگ الگ تین قسم کے غسل ہیں: ٭ نماز جمعہ کے لیے۔ ٭ یوم جمعہ کے لیے۔ ٭ غسل نظافت جو ہفتے میں ایک دن کرنا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے: حدیث ابی ہریرہ کے الفاظ ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے، یہ حکم مرد وزن، بچوں اور غلاموں الغرض تمام کو شامل ہے لیکن حدیث ابن عمر میں یہ شرط ہے کہ جو آدمی جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے جمعہ کے لیے آنا ضروری نہیں اس پر غسل کرنا ضروری نہیں۔ پھر حدیث ابی سعید میں بالغ افراد کی شرط ہے۔ اس سے غیر بالغ افراد پر غسل کا عدم وجوب ثابت ہوا۔ اس تفصیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث کو اس عنوان کے تحت کیوں بیان کیا ہے۔ (2) حدیث ابی ہریرہ میں ہے کہ ہر مسلمان کو ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں کسی دن کا تعین نہیں ہے، جبکہ سنن نسائی میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ مسلمان کو ہر ہفتے میں جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے ایک انصاری سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں مطلق طور پر غسل کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد جمعے کا دن ہے۔ (فتح الباري:492/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
885.02
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
898
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
898
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
898
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
جمعہ کے دن غسل کرنے کے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عنوان "جمعہ کے دن غسل کی فضیلت" کے تحت تفصیل گزر چکی ہے۔ اس عنوان میں "غيرهم" کے الفاظ سے غلام، مسافر اور معذور کو خارج کرنا مقصود ہے، یعنی جس طرح بچوں اور عورتوں پر غسل جمعہ ضروری نہیں اسی طرح ان سب پر جمعہ بھی فرض نہیں، ہاں اگر ادا کر لیں تو ان سے نماز ظہر ساقط ہو جائے گی۔ مذکورہ اثر کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ اس میں مزید الفاظ یہ ہیں کہ جمعہ کی ادائیگی اس انسان کے لیے ضروری ہے جو فراغت کے بعد گھر آ سکتا ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو انسان اتنی مسافت سے جمعہ پڑھنے کے لیے آئے کہ فراغت کے بعد غروب آفتاب سے پہلے پہلے اپنے گھر واپس آ جائے اور جو اس سے زیادہ مسافت طے کر کے آئے اس کے ذمے جمعہ کی ادائیگی ضروری نہیں۔ اس اثر کو پیش کرنے سے مقصود یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک غسل جمعہ اس انسان کے لیے مشروع ہے جس پر جمعہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ (فتح الباری:2/491۔492) واللہ اعلم
اور عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا غسل اسی کو واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر یہ حق ہے کہ وہ ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ جہاں روایات مختلف ہوں یا کسی مسئلے میں ائمہ کا اختلاف ہو وہاں کوئی حکم لگانے کے بجائے لفظ "هل" سے اختلاف کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، چنانچہ جمعہ کے دن غسل کے متعلق وہ قسم کی روایات ہیں: ایک روایت یہ ہے کہ جمعہ کے دن ہر بالغ کے لیے غسل کرنا ضروری ہے، خواہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غسل جمعہ صرف نماز پڑھنے والے کے لیے ہے، خواہ کوئی بھی ہو۔ ان دونوں روایات کے عموم میں تعارض ہے۔ امام بخاری ؒ نے لفظ "هل" سے اسی تعارض کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ پھر اختلاف روایات کی بنا پر اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ یہ غسل نماز جمعہ کے لیے ہے یا یوم جمعہ کے لیے۔ پھر ایک تیسری روایت بھی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے، گویا الگ الگ تین قسم کے غسل ہیں: ٭ نماز جمعہ کے لیے۔ ٭ یوم جمعہ کے لیے۔ ٭ غسل نظافت جو ہفتے میں ایک دن کرنا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے امام بخاری کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے: حدیث ابی ہریرہ کے الفاظ ہیں کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کرے، یہ حکم مرد وزن، بچوں اور غلاموں الغرض تمام کو شامل ہے لیکن حدیث ابن عمر میں یہ شرط ہے کہ جو آدمی جمعہ کے لیے آئے وہ غسل کرے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے جمعہ کے لیے آنا ضروری نہیں اس پر غسل کرنا ضروری نہیں۔ پھر حدیث ابی سعید میں بالغ افراد کی شرط ہے۔ اس سے غیر بالغ افراد پر غسل کا عدم وجوب ثابت ہوا۔ اس تفصیل سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ احادیث کو اس عنوان کے تحت کیوں بیان کیا ہے۔ (2) حدیث ابی ہریرہ میں ہے کہ ہر مسلمان کو ہر سات دن میں ایک دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ اس حدیث میں کسی دن کا تعین نہیں ہے، جبکہ سنن نسائی میں حضرت جابر ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ مسلمان کو ہر ہفتے میں جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے حضرت براء بن عازب ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ مسلمان کو جمعہ کے دن ضرور غسل کرنا چاہیے۔ امام طحاوی ؒ نے ایک انصاری سے اس قسم کی حدیث بیان کی ہے۔ ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جن احادیث میں مطلق طور پر غسل کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد جمعے کا دن ہے۔ (فتح الباري:492/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ غسل ان لوگوں کے لیے ضروری ہے جن پر جمعہ ادا کرنا واجب ہے۔
حدیث ترجمہ:
اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن (جمعہ) غسل کرے۔
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ دن جمعہ کا وہ دن ہے جس کی تعظیم عبادت الٰہی کے لیے فرض کی گئی تھی۔ قسطلانی ؒ نے چند آثار ذکر کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ ؑ نے اپنی امت کو خاص دن اللہ کی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ لیکن بہ سبب نا فرمانی کے اپنے اجتہاد کو دخل دے کر اسے ترک کر دیا اور کہنے لگے کہ ہفتہ کا دن ایسا ہے کہ اس میں اللہ نے بعد پیدائش تمام کائنات کے آرام فرمایا تھا۔ پس ہم کو بھی مناسب ہے کہ ہم ہفتہ کو عبادت کا دن مقرر کریں اور نصاری کہنے لگے کہ اتوار کے دن اللہ نے مخلوق کی پیدائش شروع کی۔ مناسب ہے کہ اس کو ہم اپنی عبادت کا دن ٹھہر الیں۔ پس ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کواللہ نے صراحتاً بتلادیا کہ جمعہ کا ہی دن بہتر دن ہے۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ مدینہ کے لوگ آنحضرت ﷺ کے آنے سے پہلے جبکہ ابھی سورۃ جمعہ بھی نازل نہیں ہوئی تھی، ایک دن جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہود ونصاریٰ نے ایک ایک دن جمع ہوکر عبادت کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں، کیوں نہ ہم بھی ایک دن مقرر کر کے اللہ کی عبادت کیا کریں۔ سو انہوں نے عروبہ کا دن مقرر کیا اور اسعد بن زرارہ کو امام بنایا اور جمعہ ادا کیا۔ اس روز یہ آیت نازل ہوئی:۔ ﴿یٰآیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُو ااِذَا نُودِیَ لَلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ﴾( الجمعة: 9) اس کو علامہ ابن حجر ؒ نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرزاق سے نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اس کا شاہد اسناد حسن کے ساتھ احمد، ابو داؤدو ابن ماجہ نے نکالا۔ استاذنا مولانا حضرت محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سمیت الجمعة لاجتماع الناس فیھا وکان یوم الجمعة یسمی العروبة۔ یعنی جمعہ اس لیے نام ہوا کہ لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں اور عہد جاہلیت میں اس کا نام یوم العروبہ تھا۔ اس فضیلت کے بارے میں امام ترمذی ؒ یہ حدیث لائے ہیں۔ عن أبي ھریرة عن النبي صلی اللہ علیه وسلم قال خیر یوم طلعت فیه الشمس یوم الجمعة فیه خلق آدم وفیه أدخل الجنة وفیه أخرج منھا ولا تقوم الساعة إلا في یوم الجمعة۔یعنی تمام دنوں میں بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا ہوئے اور اس دن میں جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ان کا جنت سے خروج ہوا اور قیامت بھی اس دن قائم ہوگی۔ فضائل جمعہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، یہ امت ہفتہ واری عید ہے۔ مگر صد افسوس کہ جن حضرات نے دیہات میں جمعہ بند کرانے کی تحریک چلائی اس سے کتنے ہی دیہات کے مسلمان جمعہ سے اس درجہ غافل ہو گئے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ آج جمعہ کا دن ہے۔ اس کی ذمہ داری ان علماءپر عائد ہوتی ہے۔ کاش یہ لوگ حالات موجودہ کا جائزہ لے کر مفادامت پر غور کر سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) through different narrators that the Prophet (ﷺ) said, "It is Allah's right on every Muslim that he should take a bath (at least) once in seven days."