باب: بارش ہو رہی ہو تو جمعہ میں حاضر ہونا واجب نہیں
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Not to attend the Jumu'ah (prayer) if it is raining)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
901.
حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔
تشریح:
(1) امام مالک ؒ کے نزدیک بارش وغیرہ ترک جمعہ کے لیے کوئی معقول عذر نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اگر بارش بہت زیادہ ہو تو نماز جمعہ میں حاضری کے لیے عذر بن سکتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کو جمہور کی تائید میں پیش کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز جمعہ ادا نہیں کی بلکہ اس کی جگہ ظہر کی نماز پڑھی تھی۔ (فتح الباري:294/2) (2) محدثین نے بیماری کو بھی عذر قرار دیا ہے اور اگر کسی مریض کی تیمارداری میں زیادہ مصروفیت کی ضرورت ہو یا اس سے دور ہونا بیماری میں اضافے کا باعث ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ ترک کی جا سکتی ہے، البتہ اس کے بجائے نماز ظہر ادا کرنا ہو گی۔ (عمدة القاري:52/5)صلوا في بيوتكم کے الفاظ اذان کے درمیان میں کہے جائیں یا اس سے فراغت کے بعد آخر میں ادا کیے جائیں؟ اس کی تفصیل ہم حدیث: 616 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
888
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
901
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
901
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
901
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت عبداللہ بن حارث جو محمد بن سیرین کے چچا زاد ہیں، سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بارش کے وقت اپنے مؤذن سے کہا کہ أشهد أن محمدا رسول الله کے بعد حي على الصلاة مت کہنا بلکہ اس کے بجائے صلوا في بيوتكم کہنا، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ایسا اس شخصیت نے کیا تھا جو مجھ سے کہیں بہتر تھی۔ نماز جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمہیں (تنگی میں مبتلا کرتے ہوئے) اس حالت میں گھروں سے نکالوں کہ تم کیچڑ اور پھسلن میں پھسلتے رہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام مالک ؒ کے نزدیک بارش وغیرہ ترک جمعہ کے لیے کوئی معقول عذر نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اگر بارش بہت زیادہ ہو تو نماز جمعہ میں حاضری کے لیے عذر بن سکتی ہے۔ امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث کو جمہور کی تائید میں پیش کیا ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے نماز جمعہ ادا نہیں کی بلکہ اس کی جگہ ظہر کی نماز پڑھی تھی۔ (فتح الباري:294/2) (2) محدثین نے بیماری کو بھی عذر قرار دیا ہے اور اگر کسی مریض کی تیمارداری میں زیادہ مصروفیت کی ضرورت ہو یا اس سے دور ہونا بیماری میں اضافے کا باعث ہو تو اس صورت میں نماز جمعہ ترک کی جا سکتی ہے، البتہ اس کے بجائے نماز ظہر ادا کرنا ہو گی۔ (عمدة القاري:52/5)صلوا في بيوتكم کے الفاظ اذان کے درمیان میں کہے جائیں یا اس سے فراغت کے بعد آخر میں ادا کیے جائیں؟ اس کی تفصیل ہم حدیث: 616 کے تحت بیان کر آئے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں صاحب الزیادی عبدالحمید نے خبر دی، کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن حارث نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس ؓنے اپنے مؤذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ أشھد ان محمدا رسول اللہ کے بعد حی علی الصلوة ( نماز کی طرف آؤ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ صلوا فی بیوتکم (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان (رسول اللہ ﷺ) نے کیا تھا۔ بے شک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے باہر نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔
حدیث حاشیہ:
تشریح: حضرت ابن عباس ؓ کا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے۔ مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے لہذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad bin Sirin (RA): On a rainy day Ibn Abbas (RA) said to his Muadh-dhin, "After saying, 'Ash-hadu anna Muhammadan Rasulullah' (I testify that Muhammad is Allah's Apostle) (ﷺ) , do not say 'Haiya 'Alas-Salat' (come for the prayer) but say 'Pray in your houses'." (The man did so). But the people disliked it. Ibn Abbas (RA) said, "It was done by one who was much better than I (i.e. the Prophet (ﷺ) ). No doubt, the Jumua prayer is compulsory but I dislike putting you to task by bringing you out walking in mud and slush."