Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: If it becomes very hot on Fridays)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
906.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب سردی زیادہ ہوتی تو نبی ﷺ نماز جلدی پڑھ لیتے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تو آپ کچھ ٹھنڈک ہونے پر نماز پڑھتے تھے۔ اس سے مراد نماز جمعہ ہے۔ راوی حدیث یونس بن بکیر نے ابوخلدہ سے بیان کیا تو انہوں نے جمعہ کے ذکر کے بجائے صرف نماز کا تذکرہ کیا۔ بشر بن ثابت نے جب ابوخلدہ سے یہ روایت بیان کی تو فرمایا کہ ہمیں امیر وقت نے جمعہ کی نماز پڑھائی پھر حضرت انس ؓ سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ نماز ظہر کیسے پڑھتے تھے؟
تشریح:
(1) قبل ازیں روایت انس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ اول وقت میں پڑھتے تھے۔ اس میں مطلقاً تعجیل کا ذکر ہے۔ موسم کے گرم یا سرد ہونے کی تفصیل نہیں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:905) جبکہ مذکورہ روایت میں یہ تفصیل موجود ہے، نیز بشر بن ثابت کی معلق روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کے نزدیک نماز ظہر اور نماز جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سوال تو نماز جمعہ کے متعلق تھا لیکن جواب میں نماز ظہر کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ اس سے بھی واضح وہ ہدایت ہے جس میں سیدنا انس ؓ نے یزید ضبی کے سوال کا جواب دیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف کی طرح اس کا نائب حکم بن ابی عقیل ثقفی بھی طویل خطبہ دیتا اور نماز میں تاخیر کرتا تھا۔ یزید ضبی نے سیدنا انس ؓ سے بآواز بلند سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نمازیں پڑھی ہیں، آپ نماز جمعہ کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا ہم موسم سرما میں نماز جلدی اور گرما میں دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا آپ نے جمعہ کو ظہر پر قیاس کر کے یہ جواب دیا اور نماز جمعہ کے لیے تاخیر کی وجہ بیان کر دی جس پر حاکم وقت سے اعتراض اٹھ گیا۔ لیکن اس کی بنیاد الفاظ حدیث پر نہیں بلکہ قیاس پر ہے، پھر اکثر احادیث نماز جمعہ اور نماز ظہر کے مابین فرق پر دلالت کرتی ہیں۔ (2) علامہ زین بن منیر ؒ نے کہا ہے کہ اس عنوان اور حدیث سے امام بخارى ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس کر کے اسے تاخیر سے پڑھا جا سکتا ہے۔ جب نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا جمعہ کے لیے بھی مشروع ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جمعہ زوال سے پہلے پڑھنا مشروع نہیں، اس لیے کہ اگر وہ زوال سے پہلے مشروع ہوتا تو زیادہ گرمی کی وجہ سے تاخیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ زوال سے پہلے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ہر طرح سے نماز کو تشویش و پریشانی سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ وہ پورے اطمینان اور خشوع خضوع سے نماز ادا کرے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی رعایت کا یہی منشا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ رعایت کسی صورت میں نہیں ہے۔ (فتح الباري:501/2) (3) یونس بن بکیر کی معلق روایت کو مصنف نے الادب المفرد میں متصل سند سے بیان کیا ہے اور بشر بن ثابت کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:500/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
893
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
906
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
906
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
906
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
سخت گرمی میں نماز ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے پر اتفاق ہے، البتہ سخت گرمی میں جمعے میں ابراد ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ ابراد جمعہ کی مشروعیت کی طرف رجحان رکھتے ہیں لیکن انہوں نے روایت میں احتمال کی وجہ سے اس کے متعلق کوئی دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب سردی زیادہ ہوتی تو نبی ﷺ نماز جلدی پڑھ لیتے اور جب گرمی زیادہ ہوتی تو آپ کچھ ٹھنڈک ہونے پر نماز پڑھتے تھے۔ اس سے مراد نماز جمعہ ہے۔ راوی حدیث یونس بن بکیر نے ابوخلدہ سے بیان کیا تو انہوں نے جمعہ کے ذکر کے بجائے صرف نماز کا تذکرہ کیا۔ بشر بن ثابت نے جب ابوخلدہ سے یہ روایت بیان کی تو فرمایا کہ ہمیں امیر وقت نے جمعہ کی نماز پڑھائی پھر حضرت انس ؓ سے دریافت کیا کہ نبی ﷺ نماز ظہر کیسے پڑھتے تھے؟
حدیث حاشیہ:
(1) قبل ازیں روایت انس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز جمعہ اول وقت میں پڑھتے تھے۔ اس میں مطلقاً تعجیل کا ذکر ہے۔ موسم کے گرم یا سرد ہونے کی تفصیل نہیں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:905) جبکہ مذکورہ روایت میں یہ تفصیل موجود ہے، نیز بشر بن ثابت کی معلق روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس ؓ کے نزدیک نماز ظہر اور نماز جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سوال تو نماز جمعہ کے متعلق تھا لیکن جواب میں نماز ظہر کا وقت بیان کیا گیا ہے۔ اس سے بھی واضح وہ ہدایت ہے جس میں سیدنا انس ؓ نے یزید ضبی کے سوال کا جواب دیا تھا جبکہ حجاج بن یوسف کی طرح اس کا نائب حکم بن ابی عقیل ثقفی بھی طویل خطبہ دیتا اور نماز میں تاخیر کرتا تھا۔ یزید ضبی نے سیدنا انس ؓ سے بآواز بلند سوال کیا کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نمازیں پڑھی ہیں، آپ نماز جمعہ کس طرح پڑھا کرتے تھے؟ حضرت انس ؓ نے جواب دیا ہم موسم سرما میں نماز جلدی اور گرما میں دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا آپ نے جمعہ کو ظہر پر قیاس کر کے یہ جواب دیا اور نماز جمعہ کے لیے تاخیر کی وجہ بیان کر دی جس پر حاکم وقت سے اعتراض اٹھ گیا۔ لیکن اس کی بنیاد الفاظ حدیث پر نہیں بلکہ قیاس پر ہے، پھر اکثر احادیث نماز جمعہ اور نماز ظہر کے مابین فرق پر دلالت کرتی ہیں۔ (2) علامہ زین بن منیر ؒ نے کہا ہے کہ اس عنوان اور حدیث سے امام بخارى ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز جمعہ کو نماز ظہر پر قیاس کر کے اسے تاخیر سے پڑھا جا سکتا ہے۔ جب نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنا جمعہ کے لیے بھی مشروع ہے تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جمعہ زوال سے پہلے پڑھنا مشروع نہیں، اس لیے کہ اگر وہ زوال سے پہلے مشروع ہوتا تو زیادہ گرمی کی وجہ سے تاخیر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ زوال سے پہلے ٹھنڈے وقت میں پڑھا جا سکتا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت کا منشا ہر طرح سے نماز کو تشویش و پریشانی سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ وہ پورے اطمینان اور خشوع خضوع سے نماز ادا کرے۔ گرمی میں نماز کو ٹھنڈا کر کے پڑھنے کی رعایت کا یہی منشا ہے جبکہ موسم سرما میں یہ رعایت کسی صورت میں نہیں ہے۔ (فتح الباري:501/2) (3) یونس بن بکیر کی معلق روایت کو مصنف نے الادب المفرد میں متصل سند سے بیان کیا ہے اور بشر بن ثابت کی روایت کو امام بیہقی ؒ نے اپنی سنن میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:500/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوخلدہ جن کا نام خالد بن دینار ہے، نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک ؓ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اگر سردی زیادہ پڑتی تو نبی کریم ﷺ نماز سویرے پڑھ لیتے۔ لیکن جب گرمی زیادہ ہوتی تو ٹھنڈے وقت نماز پڑھتے۔ آپ کی مراد جمعہ کی نماز سے تھی۔ یونس بن بکیر نے کہا کہ ہمیں ابوخلدہ نے خبر دی۔ انہوں نے صرف نماز کہا۔ جمعہ کا ذکر نہیں کیا اور بشر بن ثابت نے کہا کہ ہم سے ابو خلدہ نے بیان کیا کہ امیر نے ہمیں جمعہ کی نماز پڑھائی۔ پھر حضرت انس ؓ سے پوچھا کہ نبی کریم ﷺ ظہر کی نماز کس وقت پڑھتے تھے؟
حدیث حاشیہ:
امیر سے حکم بن ابو عقیل ثقفی مراد ہیں جو حجاج بن یوسف کی طرف سے نائب تھے۔ استدل به ابن بطال علی أن وقت الجمعة وقت الظھر لأن أنسا سوی بینھما في جوابه للحکم المذکور حین قیل کیف کان النبي صلی اللہ علیه وسلم یصلي الظھر۔( یعنی ) اس سے ابن بطال نے استدلال کیا کہ جمعہ اور ظہر کا وقت ایک ہی ہے۔ کیونکہ حضرت انس نے جواب میں جمعہ اور ظہر کو برابر کیا جبکہ ان سے پوچھا گیا کہ حضور ﷺ ظہر کی نماز کس وقت ادا فرمایا کرتے تھے؟
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): The Prophet (ﷺ) used to offer the prayer earlier if it was very cold; and if it was very hot he used to delay the prayer, i.e. the Jumua prayer.