Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To go walking unhurriedly)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے(سورۃ الجمعہ)میں فرمایاکہ”اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو“اور اس کی تفسیر جس نے یہ کہا کہسعى کے معنی عمل کرنا اور چلنا جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے سعى لها سعيها یہاںسعى کے یہی معنی ہیں۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ خرید و فروخت جمعہ کی اذان ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے عطاء نے کہا کہ تمام کاروبار اس وقت حرام ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم بن سعد نے زہری کا یہ قول نقل کیا کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر بھی شرکت کرے۔
908.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان اور سکون سے چلتے ہوئے آؤ۔ وقار و طمانیت تم پر لازم ہے۔ نماز کا جو حصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھو اور جو نہ ملے اسے پورا کر لو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جمعہ کے لیے جس سعی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سعی نہیں جس کی حدیث مذکورہ میں ممانعت ہے کیونکہ آیت میں سعی سے مراد کوشش کر کے جانا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے اس کی تفسیر مروی ہے اور حدیث میں سعی سے مراد دوڑ کر آنا ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں لفظ مشي استعمال ہوا ہے جس کے معنی پیدل چلنا ہیں۔ (فتح الباري:502/2) اس کے علاوہ سعي إلی الصلاة اور سعي إلی الجمعة میں فرق بھی ہے۔ سعي إلی الصلاة اس لیے منع ہے کہ جب انسان نماز کے لیے دوڑ کر آئے گا تو ہانپتا ہوا نماز میں شامل ہو گا، ایسا کرنا نماز میں خضوع خشوع کے منافی ہے جبکہ سعي إلی الجمعة میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ جب جمعہ کے لیے سعی کر کے آئے گا تو اسے نماز سے پہلے کچھ وقت سستانے اور آرام کرنے کے لیے مل جائے گا اور نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی نتیجے اور انجام کے لحاظ سے سکون و وقار کے منافی ہو گی وہ منع ہے اور جس سے سکون و وقار میں خلل پیدا نہیں ہو گا اس کے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:504/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
895
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
908
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
908
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
908
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ اس عنوان سے چند ایک چیزیں ثابت کرنا چاہتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ جمعہ کے لیے پیدل جانے کی فضیلت۔ ٭ قرآنی آیت میں آنے والے لفظ "سعی" کے معنی کی تعیین۔ ٭ قرآنی آیت میں جمعہ کے لیے دوڑ کر آنے کا حکم اور احادیث میں اس کی ممانعت ہے، اس میں رفع تعارض کا بیان۔ ٭ اذان جمعہ کے بعد آیا صرف خریدوفروخت منع ہے یا دیگر دنیوی مشاغل کی بھی ممانعت ہے؟ ٭ جب مسافر اذان جمعہ سنے تو کیا اسے جمعہ کے لیے حاضر ہونا ضروری ہے یا اسے کوئی رخصت ہے؟ چنانچہ عنوان کے تحت پیش کردہ احادیث میں جمعہ کے لیے پیدل آنے کو "في سبيل الله" سے تعبیر کیا گیا ہے اور قرآنی آیت میں مستعمل لفظ سعی کے معنی دوڑ کر آنا نہیں بلکہ اس کے معنی عمل کرنا اور صرف چل کر آنا ہیں جیسا کہ ایک دوسری آیت میں اس کے معنی عمل کرنا اور کوشش کرنا متعین ہیں۔ اس سے قرآنی آیت اور حدیث میں بظاہر تعارض بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اذان جمعہ کے بعد صرف خریدوفروخت ہی منع نہیں بلکہ ہر قسم کے دنیوی مشاغل ممنوع ہیں جو جمعہ میں رکاوٹ کا باعث ہوں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن منذر سے نقل کیا ہے کہ مسافر پر جمعہ فرض نہیں۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے، اس لیے مسافر کے متعلق امام زہری کے قول کی تاویل کرنا ہو گی، یعنی اسے دو حالتوں پر محمول کرنا ہو گا: ٭ مسافر پر جمعہ نہیں کا مطلب ہو گا کہ اس پر فرض نہیں۔ ٭ امام زہری کے قول "مسافر کو جمعہ پڑھنا چاہیے" یہ استحباب پر محمول کیا جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ امام زہری سے نقل کرنے والے ابراہیم بن سعد کا قول ایک خاص صورت پر محمول کیا جائے کہ جب اتفاق سے مسافر ایسی جگہ پر موجود ہو جہاں جمعہ ہوتا ہو اور وہاں وہ جمعہ کی اذان سن لے تو اسے جمعہ پڑھنا چاہیے۔ (فتح الباری:2/503)
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ الجمعہ) میں فرمایا کہ ”اللہ کے ذکر کی طرف تیزی کے ساتھ چلو“ اور اس کی تفسیر جس نے یہ کہا کہ سعى کے معنی عمل کرنا اور چلنا جیسے سورۃ بنی اسرائیل میں ہے سعى لها سعيها یہاں سعى کے یہی معنی ہیں۔ ابن عباس ؓنے کہا کہ خرید و فروخت جمعہ کی اذان ہوتے ہی حرام ہو جاتی ہے عطاء نے کہا کہ تمام کاروبار اس وقت حرام ہو جاتے ہیں۔ ابراہیم بن سعد نے زہری کا یہ قول نقل کیا کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر بھی شرکت کرے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو نماز کے لیے دوڑتے ہوئے مت آؤ بلکہ اطمینان اور سکون سے چلتے ہوئے آؤ۔ وقار و طمانیت تم پر لازم ہے۔ نماز کا جو حصہ تمہیں مل جائے اسے پڑھو اور جو نہ ملے اسے پورا کر لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا اس حدیث کو بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جمعہ کے لیے جس سعی کا ذکر ہے اس سے مراد وہ سعی نہیں جس کی حدیث مذکورہ میں ممانعت ہے کیونکہ آیت میں سعی سے مراد کوشش کر کے جانا ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ سے اس کی تفسیر مروی ہے اور حدیث میں سعی سے مراد دوڑ کر آنا ہے جس کی شرعاً ممانعت ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں لفظ مشي استعمال ہوا ہے جس کے معنی پیدل چلنا ہیں۔ (فتح الباري:502/2) اس کے علاوہ سعي إلی الصلاة اور سعي إلی الجمعة میں فرق بھی ہے۔ سعي إلی الصلاة اس لیے منع ہے کہ جب انسان نماز کے لیے دوڑ کر آئے گا تو ہانپتا ہوا نماز میں شامل ہو گا، ایسا کرنا نماز میں خضوع خشوع کے منافی ہے جبکہ سعي إلی الجمعة میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ جب جمعہ کے لیے سعی کر کے آئے گا تو اسے نماز سے پہلے کچھ وقت سستانے اور آرام کرنے کے لیے مل جائے گا اور نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بھی نتیجے اور انجام کے لحاظ سے سکون و وقار کے منافی ہو گی وہ منع ہے اور جس سے سکون و وقار میں خلل پیدا نہیں ہو گا اس کے بجا لانے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:504/2)
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جب جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو۔" بعض حضرات کا قول ہے کہ سعی سے مراد عمل کرنا اور چلنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے آخرت کے لیے کوشش اور محنت کی۔"حضرت ابن عباس ؓ کا فرمان ہے: اذان جمعہ کے بعد خریدوفروخت حرام ہے۔ حضرت عطاء بن ابی رباح کا قول ہے: خریدوفروخت کے ساتھ ساتھ تمام کام اور مشاغل حرام ہیں۔ حضرت ابراہیم بن سعد نے امام زہری سے نقل کیا ہے کہ جمعہ کے دن جب مؤذن اذان دے تو مسافر کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ جمعہ میں شرکت کرے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے سعید اور ابوسلمہ سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے (دوسری سند سے بیان کیا) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انھیں ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی، وہ ابوہریرہ ؓ سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جب نماز کے لیے تکبیر کہی جائے تو دوڑ تے ہوئے مت آؤ بلکہ (اپنی معمولی رفتارسے) آؤ پورے اطمینان کے ساتھ پھر نماز کا جو حصہ (امام کے ساتھ) پالواسے پڑھ لو اور جو رہ جائے تواسے بعد میں پورا کرو۔
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جمعہ کی نماز بھی ایک نماز ہے اور اس کے لیے دوڑنا منع ہو کر معمولی چال سے چلنے کا حکم ہوا یہی ترجمہ باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): heard Allah's Apostles ( (ﷺ) ) saying, "If the prayer is started do not run for it but just walk for it calmly and pray whatever you get, and complete whatever is missed. "