Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Adhan on Friday (for the Jumu'ah prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
912.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔
تشریح:
(1) صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آتا۔‘‘(صحیح ابن خزیمه:136/3) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں دو اذانیں ہوتی تھیں۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3) امام ابن خزیمہ ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ ان اذانوں سے مراد اذان خطبہ اور اقامت نماز ہے۔ چونکہ اذان خطبہ غیر موجود لوگوں کو اطلاع اور اقامت، حاضرین کو آگاہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے، اس لیے دونوں کو اذان کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ اس سے مراد بھی اذان اور اقامت ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3) (2) عثمانی اذان اضافے کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے۔ بعض روایات میں اسے اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:915) حقیقی اذان نبوی کے مقابلے میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے اذان عثمانی پہلی ہے۔ روایات میں عام طور پر اذان نبوی کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب امام منبر پر فروکش ہو جاتا تو اذان کہی جاتی تھی، محل کا ذکر نہیں ملتا۔ محل اذان کے متعلق معجم طبرانی میں حدیث ہے: (كان النداء علی عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و أبي بكر و عمر عند المنبر)’’رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے زمانے میں اذان (جمعہ) منبر کے پاس ہوتی تھی۔‘‘(المعجم الکبیر للطبراني:146/7) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ائمہ اربعہ کے ہاں بھی اسی پر عمل ہے۔ (3) اس سلسلے میں جمعے کے لیے پہلی اذان کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی، وہ بھی اس وقت کہی جاتی تھی جب خطیب منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء) پر ایک اذان کا اضافہ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی خبردار کیا جا سکے۔ اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کر لیا۔ اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو مباح قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریبا ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں میں اذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان حالات میں کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لہذا حضرت عثمان ؓ کے عمل سے پہلی اذان کو جواز کشید کرنا محل نظر ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے۔ یہ بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:470/3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات علی سبیل انکار کہی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے آپ کی مراد انکار نہ ہو بلکہ تحسین کے طور پر ایسا کہا ہو کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ اذان نہیں تھی، تاہم ایک اچھا عمل ہے جسے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:507/2) ہمارے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ حضرت علی ؓ نے دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کر کے اذان نبوی ہی کو برقرار رکھا۔ (تفسیر القرطبي:100/18) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر ؓ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ نویں صدی ہجری کے نصف تک مغرب ادنیٰ (تونس و طرابلس) کے علاقے میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دینے کا اہتمام تھا۔ (فتح الباري:507/2) امام شافعی ؒ جمعہ کی اذان کے متعلق عہد رسالت ہی کے طرز عمل کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (کتاب الأم:195/1) واضح رہے کہ ہم جمعہ کے لیے پہلی اذان کو بدعت بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کی تھی، وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے اذان اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے۔ چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اجر کے ضیاع کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے انہوں نے پہلی اذان کا اہتمام کر دیا، لیکن جن حضرات کو اس کے جاری رکھنے پر اصرار ہے انہیں چاہیے کہ سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے بازار میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پہلی اذان دینے کا اہتمام کریں۔ ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے، کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس نبوی طرز عمل کو بدلنا قطعاً مستحسن نہیں، البتہ جہاں دو اذانیں ہوتی ہیں وہاں دیکھا جائے کہ اگر کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پر اکتفا کیا جائے۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کرتے رہنا اولین فریضہ ہونا چاہیے، اس بنا پر ایسے معاملات کو باہمی اختلاف و جدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
899
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
912
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
912
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
912
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور میں جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ نے مقام زوراء پر تیسری اذان کا اضافہ فرما دیا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ ) کہتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں واقع ایک جگہ کا نام ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ ہیں: ’’وہ اذان جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیا ہے جمعہ کے دن اس وقت ہوتی تھی جب امام خطبے کے لیے تشریف لے آتا۔‘‘(صحیح ابن خزیمه:136/3) ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد میں دو اذانیں ہوتی تھیں۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3) امام ابن خزیمہ ؒ وضاحت کرتے ہیں کہ ان اذانوں سے مراد اذان خطبہ اور اقامت نماز ہے۔ چونکہ اذان خطبہ غیر موجود لوگوں کو اطلاع اور اقامت، حاضرین کو آگاہ کرنے کے لیے کہی جاتی ہے، اس لیے دونوں کو اذان کہہ دیا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔ اس سے مراد بھی اذان اور اقامت ہے۔ (صحیح ابن خزیمة:137/3) (2) عثمانی اذان اضافے کے اعتبار سے تیسری اور ترتیب کے لحاظ سے پہلی ہے۔ بعض روایات میں اسے اذان ثانی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:915) حقیقی اذان نبوی کے مقابلے میں اسے دوسری اذان کہا جاتا ہے اگرچہ ترتیب کے اعتبار سے اذان عثمانی پہلی ہے۔ روایات میں عام طور پر اذان نبوی کا وقت بتایا گیا ہے کہ جب امام منبر پر فروکش ہو جاتا تو اذان کہی جاتی تھی، محل کا ذکر نہیں ملتا۔ محل اذان کے متعلق معجم طبرانی میں حدیث ہے: (كان النداء علی عهد رسول الله صلي الله عليه وسلم و أبي بكر و عمر عند المنبر)’’رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر و عمر ؓ کے زمانے میں اذان (جمعہ) منبر کے پاس ہوتی تھی۔‘‘(المعجم الکبیر للطبراني:146/7) اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ائمہ اربعہ کے ہاں بھی اسی پر عمل ہے۔ (3) اس سلسلے میں جمعے کے لیے پہلی اذان کا مسئلہ بھی قابل توجہ ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارش یہ ہے کہ مذکورہ بالا حدیث بخاری سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعے کے لیے صرف ایک ہی اذان دی جاتی تھی، وہ بھی اس وقت کہی جاتی تھی جب خطیب منبر پر بیٹھ جاتا تھا، پھر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کی کثرت کے باعث بازار میں ایک اونچے مقام (زوراء) پر ایک اذان کا اضافہ صرف اس لیے کیا تھا تاکہ لوگوں کو بآسانی خبردار کیا جا سکے۔ اسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت نے اختیار کر لیا۔ اگر آج بھی ایسے حالات ہوں تو اس عمل کو مباح قرار دیا جا سکتا ہے لیکن عصر حاضر میں تقریبا ہر مسجد میں لاؤڈ سپیکر موجود ہوتا ہے جس کے ذریعے سے دور دراز علاقوں میں اذان کی آواز پہنچانا کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ ان حالات میں کسی ہنگامی اذان کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی، لہذا حضرت عثمان ؓ کے عمل سے پہلی اذان کو جواز کشید کرنا محل نظر ہے۔ یہ دعویٰ کرنا کہ پہلی اذان کے جواز پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع سکوتی ہے۔ یہ بھی غوروفکر کا متقاضی ہے کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ جمعہ کے دن پہلی اذان کہنا بدعت ہے۔ (المصنف لابن أبي شیبة:470/3) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ نے یہ بات علی سبیل انکار کہی تھی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سے آپ کی مراد انکار نہ ہو بلکہ تحسین کے طور پر ایسا کہا ہو کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ اذان نہیں تھی، تاہم ایک اچھا عمل ہے جسے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر شروع کیا گیا ہے۔ (فتح الباري:507/2) ہمارے نزدیک پہلا احتمال راجح ہے کیونکہ حضرت علی ؓ نے دارالحکومت کوفہ میں اسے ختم کر کے اذان نبوی ہی کو برقرار رکھا۔ (تفسیر القرطبي:100/18) اس کے علاوہ حافظ ابن حجر ؓ نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ نویں صدی ہجری کے نصف تک مغرب ادنیٰ (تونس و طرابلس) کے علاقے میں جمعہ کے لیے صرف ایک اذان دینے کا اہتمام تھا۔ (فتح الباري:507/2) امام شافعی ؒ جمعہ کی اذان کے متعلق عہد رسالت ہی کے طرز عمل کو زیادہ پسند کرتے تھے۔ (کتاب الأم:195/1) واضح رہے کہ ہم جمعہ کے لیے پہلی اذان کو بدعت بھی نہیں کہہ سکتے کیونکہ خلیفۂ راشد سیدنا عثمان ؓ نے یہ اذان دوسری نمازوں پر قیاس کرتے ہوئے شروع کی تھی، وہ اس طرح کہ کسی بھی نماز کے لیے اذان اس لیے دی جاتی ہے تاکہ لوگوں کو نماز کے وقت سے خبردار کیا جا سکے۔ چونکہ لوگوں کی کثرت کے باعث جمعہ کے دن ایسا ممکن نہ تھا کہ ایک ہی اذان سے سب کو اطلاع ہو جائے اور ان کے دیر سے آنے کی وجہ سے اجر کے ضیاع کا بھی اندیشہ تھا، اس لیے انہوں نے پہلی اذان کا اہتمام کر دیا، لیکن جن حضرات کو اس کے جاری رکھنے پر اصرار ہے انہیں چاہیے کہ سنت عثمان پر عمل کرتے ہوئے بازار میں کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر پہلی اذان دینے کا اہتمام کریں۔ ہمارے نزدیک تفصیل بالا کے پیش نظر سنت نبوی کے مطابق جہاں ایک اذان دینے کا عمل ہے وہاں اسے برقرار رہنا چاہیے، کسی خاص مکتب فکر کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے اس نبوی طرز عمل کو بدلنا قطعاً مستحسن نہیں، البتہ جہاں دو اذانیں ہوتی ہیں وہاں دیکھا جائے کہ اگر کسی قسم کے فتنہ و فساد کا اندیشہ نہ ہو تو وہاں ایک اذان پر اکتفا کیا جائے۔ اگر حالات سازگار نہ ہوں تو ان کے سازگار ہونے تک دونوں اذانوں کو برقرار رکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن سنت نبوی پر عمل کرنے کے لیے ذہن سازی کرتے رہنا اولین فریضہ ہونا چاہیے، اس بنا پر ایسے معاملات کو باہمی اختلاف و جدال کا ذریعہ نہ بنایا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر خطبہ کے لیے بیٹھتے لیکن حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب مسلمانوں کی کثرت ہوگئی تو وہ مقام زوراء سے ایک اور اذان دلوانے لگے۔ ابو عبد اللہ امام بخاری ؓ فرماتے ہیں کہ زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اصل اذان وہی تھی جو آنحضرت ﷺ وشیخین کے مبارک زمانوں میں امام کے منبر پر آنے کے وقت دی جاتی تھی۔ بعد میں حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بازار میں ایک اذان کا اور اضافہ کر دیا۔تاکہ وقت سے لوگ جمعہ کے لیے تیار ہو سکیں۔ حضرت عثمان ؓ کی طرح بوقت ضرورت مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان اگر اب بھی دی جائے تو جائز ہے مگر جہاں ضرورت نہ ہو وہاں سنت کے مطابق صرف خطبہ ہی کے وقت خوب بلند آواز سے ایک ہی اذان دینی چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Saib bin Yazid (RA): In the life-time of the Prophet, Abu Bakr (RA) and Umar, the Adhan for the Jumua prayer used to be pronounced when the Imam sat on the pulpit. But during the Caliphate of 'Uthman when the Muslims increased in number, a third Adhan at Az-Zaura' was added. Abu 'Abdullah said, "Az-Zaura' is a place in the market of Medina."