Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: One Mu'adh-dhin on Friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
913.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔
تشریح:
(1) ابن حبیب وغیرہ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب منبر پر تشریف رکھتے تو یکے بعد دیگرے تین مؤذن اذان دیا کرتے تھے اور تیسرے کی اذان سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ شروع فرماتے۔ امام بخاری ؒ نے اسی موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (فتح الباري:508/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ حرمین میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کے دن اور دوسرے ایام میں بھی کئی مؤذن جمع ہو کر بلند آواز سے اذان دیتے ہیں۔ یہ دستور رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہیں تھا کیونکہ عہد رسالت میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا تھا، تاہم اس عمل کو بدعت اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس کی بنیاد موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کو فرمایا تھا کہ وہ اذان کے کلمات حضرت بلال پر القا کریں۔ اس طرح دونوں حضرات بلند آواز سے اذان کہتے تھے۔ (شرح تراجم بخاری) شاہ ولی اللہ ؒ کی بات اس لیے محل نظر ہے کہ حضرت بلال ؓ کو اذان سکھانے کا معاملہ صرف ایک مرتبہ ہوا تھا، ہر اذان کے موقع پر یہ عمل نہیں دہرایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آج کل حرمین میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا ہے، بیک وقت متعدد اذانین دینے کا عمل متروک ہو چکا ہے۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تیسری اذان دینے کا اہتمام کیا تھا۔ آپ نے حکم دیا تھا کہ اذان دینے والے مسجد سے باہر اذان دیں تاکہ لوگوں کو وقت جمعہ کا پتہ چل جائے، نیز آپ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ اذان خطبہ منبر کے پاس کہی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں معمول تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس تیسری اذان کا اہتمام اس لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو چکی ہے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ حضرت معاذ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مکحول ہیں، ان دونوں کے درمیان انقطاع ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ تیسری اذان کا اہتمام حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تھا جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ہے۔ (فتح الباري:507/2)واللہ أعلم۔ (3) عہد رسالت میں حضرت ابو محذورہ اور حضرت سعد القرظی ؓ بھی اذان دیا کرتے تھے لیکن مسجد نبوی میں ان کا اذان دینا ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کی مساجد میں اذان کے لیے تعینات تھے۔ حضرت ابن ام مکتوم ؓ کا نام بھی اذان دینے والوں میں ملتا ہے لیکن وہ صرف صبح کی دوسری اذان کہتے تھے، دیگر اذانوں کے لیے صرف سیدنا بلال ؓ تعینات تھے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں جمعہ اور غیر جمعہ کی تمام نمازوں کے لیے ایک ہی مؤذن ہوا کرتا تھا، وہی اذان دیتا اور تکبیر کہتا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال ؓ جمعہ کے لیے اس وقت اذان کہتے جب رسول اللہ ؓ منبر پر تشریف فرماتے اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتے۔ (دیکھیے ترجمۃ الباب والی حدیث)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
900
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
913
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
913
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
913
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جب اہل مدینہ کی آبادی زیادہ ہو گئی تو اس وقت جمعہ کے دن تیسری اذان کا اہتمام کرنے والے حضرت عثمان ؓ تھے۔ اور نبی ﷺ کا تو ایک ہی مؤذن تھا۔ اور جمعہ کے دن اس وقت اذان دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھ جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ابن حبیب وغیرہ کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب منبر پر تشریف رکھتے تو یکے بعد دیگرے تین مؤذن اذان دیا کرتے تھے اور تیسرے کی اذان سے فراغت کے بعد رسول اللہ ﷺ کھڑے ہو کر خطبہ شروع فرماتے۔ امام بخاری ؒ نے اسی موقف کی تردید کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ (فتح الباري:508/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ حرمین میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کے دن اور دوسرے ایام میں بھی کئی مؤذن جمع ہو کر بلند آواز سے اذان دیتے ہیں۔ یہ دستور رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہیں تھا کیونکہ عہد رسالت میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا تھا، تاہم اس عمل کو بدعت اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ اس کی بنیاد موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن زید بن عبد ربہ کو فرمایا تھا کہ وہ اذان کے کلمات حضرت بلال پر القا کریں۔ اس طرح دونوں حضرات بلند آواز سے اذان کہتے تھے۔ (شرح تراجم بخاری) شاہ ولی اللہ ؒ کی بات اس لیے محل نظر ہے کہ حضرت بلال ؓ کو اذان سکھانے کا معاملہ صرف ایک مرتبہ ہوا تھا، ہر اذان کے موقع پر یہ عمل نہیں دہرایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ آج کل حرمین میں ایک ہی مؤذن اذان دیتا ہے، بیک وقت متعدد اذانین دینے کا عمل متروک ہو چکا ہے۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے تیسری اذان دینے کا اہتمام کیا تھا۔ آپ نے حکم دیا تھا کہ اذان دینے والے مسجد سے باہر اذان دیں تاکہ لوگوں کو وقت جمعہ کا پتہ چل جائے، نیز آپ نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ اذان خطبہ منبر کے پاس کہی جائے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے دور میں معمول تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ہم نے اس تیسری اذان کا اہتمام اس لیے کیا ہے کہ مسلمانوں کی آبادی زیادہ ہو چکی ہے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ حضرت معاذ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مکحول ہیں، ان دونوں کے درمیان انقطاع ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ تیسری اذان کا اہتمام حضرت عثمان ؓ نے فرمایا تھا جیسا کہ صحیحین وغیرہ میں ہے۔ (فتح الباري:507/2)واللہ أعلم۔ (3) عہد رسالت میں حضرت ابو محذورہ اور حضرت سعد القرظی ؓ بھی اذان دیا کرتے تھے لیکن مسجد نبوی میں ان کا اذان دینا ثابت نہیں بلکہ وہ اپنے اپنے قبیلے کی مساجد میں اذان کے لیے تعینات تھے۔ حضرت ابن ام مکتوم ؓ کا نام بھی اذان دینے والوں میں ملتا ہے لیکن وہ صرف صبح کی دوسری اذان کہتے تھے، دیگر اذانوں کے لیے صرف سیدنا بلال ؓ تعینات تھے جیسا کہ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں جمعہ اور غیر جمعہ کی تمام نمازوں کے لیے ایک ہی مؤذن ہوا کرتا تھا، وہی اذان دیتا اور تکبیر کہتا۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت بلال ؓ جمعہ کے لیے اس وقت اذان کہتے جب رسول اللہ ؓ منبر پر تشریف فرماتے اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتے۔ (دیکھیے ترجمۃ الباب والی حدیث)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابوسلمہ ماجشون نے بیا کیا، انہوں نے کہا ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے سائب بن یزید نے کہ جمعہ میں تیسری اذان حضرت عثمان بن عفان ؓ نے بڑھائی جبکہ مدینہ میں لوگ زیادہ ہو گئے تھے جب کہ نبی کریم ﷺ کے ایک ہی مؤذن تھے۔ (آپ ﷺ کے دور میں) جمعہ کی اذان اس وقت دی جاتی جب امام منبر پر بیٹھتا۔
حدیث حاشیہ:
اس سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ جب منبر پر جاتے توتین مؤذن ایک کے بعد ایک اذان دیتے۔ ایک مؤذن کا مطلب یہ کہ جمعہ کی اذان خاص ایک مؤذن حضرت بلال ؓ ہی دیا کرتے تھے ورنہ ویسے تو عہد نبوی میں کئی مؤذن مقرر تھے جو باری باری اپنے وقتوں پر اذان دیا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Saib bin Yazid (RA): The person who increased the number of Adhans for the Jumua prayers to three was Uthman bin Affan and it was when the number of the (Muslim) people of Madinah had increased. In the life-time of the Prophet (ﷺ) there was only one Muadh-dhin and the Adhan used to be pronounced only after the Imam had taken his seat (i.e. on the pulpit).