باب: جمعہ کی اذان ختم ہونے تک امام منبر پر بیٹھا رہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To sit on the pulpit while Adhan is pronounced)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
915.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن اذان ثانی کا حکم حضرت عثمان ؓ نے دیا جبکہ اہل مسجد کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا تھا۔
تشریح:
(1) بعض اہل کوفہ کے نزدیک اذان کے وقت خطیب کا منبر پر بیٹھنا غیر مشروع ہے جبکہ امام مالک، شافعی اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ نے اسے سنت قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی ان حضرات کی تائید میں یہ عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:510/2) (2) اس میں اختلاف ہے کہ اذان کے وقت منبر پر بیٹھنا استراحت کے لیے ہے یا اذان کو اطمینان و سکون سے سننے کے لیے ہے۔ جو حضرات اسے استراحت کے لیے قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک جمعہ و عیدین میں کوئی فرق نہیں اور جن کے نزدیک یہ بیٹھنا استماع اذان کے لیے ہے ان کا کہنا ہے کہ جمعہ میں بیٹھنا مشروع ہے اور عیدین میں بیٹھنا درست نہیں کیونکہ وہاں تو اذان نہیں ہوتی۔ (3) علامہ عینی ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ کو بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ’’جب امام منبر پر بیٹھے تو اس وقت اذان دینے کا بیان‘‘ کیونکہ حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے۔ (عمدۃ القاري:76/2) لیکن امام بخاری ؒ کے عنوان میں زیادہ وزن ہے جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
902
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
915
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
915
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
915
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے کہ جمعہ کے دن اذان ثانی کا حکم حضرت عثمان ؓ نے دیا جبکہ اہل مسجد کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بعض اہل کوفہ کے نزدیک اذان کے وقت خطیب کا منبر پر بیٹھنا غیر مشروع ہے جبکہ امام مالک، شافعی اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ نے اسے سنت قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے بھی ان حضرات کی تائید میں یہ عنوان قائم کیا ہے۔ (فتح الباري:510/2) (2) اس میں اختلاف ہے کہ اذان کے وقت منبر پر بیٹھنا استراحت کے لیے ہے یا اذان کو اطمینان و سکون سے سننے کے لیے ہے۔ جو حضرات اسے استراحت کے لیے قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک جمعہ و عیدین میں کوئی فرق نہیں اور جن کے نزدیک یہ بیٹھنا استماع اذان کے لیے ہے ان کا کہنا ہے کہ جمعہ میں بیٹھنا مشروع ہے اور عیدین میں بیٹھنا درست نہیں کیونکہ وہاں تو اذان نہیں ہوتی۔ (3) علامہ عینی ؒ نے لکھا کہ امام بخاری ؒ کو بایں الفاظ عنوان قائم کرنا چاہیے تھا: ’’جب امام منبر پر بیٹھے تو اس وقت اذان دینے کا بیان‘‘ کیونکہ حدیث سے یہی ثابت ہو رہا ہے۔ (عمدۃ القاري:76/2) لیکن امام بخاری ؒ کے عنوان میں زیادہ وزن ہے جیسا کہ ہم نے اس کی وضاحت کی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے کہ سائب بن یزید نے انہیں خبر دی کہ جمعہ کی دوسری اذان کا حکم حضرت عثمان بن عفان ؓ نے اس وقت دیا جب نمازی بہت زیادہ ہو گئے تھے اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی جب امام منبر پر بیٹھا کر تا تھا۔
حدیث حاشیہ:
صاحب تفہیم البخاری حنفی دیوبندی کہتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جمعہ کی اذان کا طریقہ پنج وقتہ اذان سے مختلف تھا۔ اور دونوں میں اذان نماز سے کچھ پہلے دی جاتی تھی۔ لیکن جمعہ کی اذان کے ساتھ ہی خطبہ شروع ہو جاتا تھا اور اس کے بعد فوراً نماز شروع کر دی جاتی۔ یہ یاد رہے کہ آج کل جمعہ کا خطبہ شروع ہونے پر امام کے سامنے آہستہ سے مؤذن جواذان دیتے ہیں۔ یہ خلاف سنت ہے۔ خطبہ کی اذان بھی بلند جگہ پر بلند آوازہونی چاہیے۔ ابن منیر کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے کوفہ والوں کا رد کیا جو کہتے ہیں کہ خطبہ سے پہلے منبر پر بیٹھنا مشروع نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated As-Sa'ib bin Yazid I (RA): 'Uthman bin 'Affan introduced the second Adhan on Fridays when the number of the people in the mosque increased. Previously the Adhan on Fridays used to be pronounced only after the Imam had taken his seat (on the pulpit).