Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Adhan before delivering the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
916.
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن اذان کا آغاز اس وقت ہوتا تھا جب امام جمعہ کے دن (خطبے کے لیے) منبر پر بیٹھ جاتا۔ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے تک یہی معمول رہا۔ پھر جب حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا دور آیا اور لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا۔ یہ اذان مقام "زوراء" پر دی گئی، بعد میں یہی دستور قائم رہا۔
تشریح:
امام بخاری ؒ نے کتاب الأذان کے آغاز میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: ’’اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟‘‘ وہاں آپ نے امام ترمذی ؒ کی بیان کردہ ایک روایت کی تائید کی تھی کہ اذان اور تکبیر کے درمیان اتنا توقف ہونا چاہیے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو جائے اور ضرورت مند اپنی حاجت پوری کرے۔ مذکورہ عنوان قائم کر کے امام بخاری ؒ اسے سابقہ عنوان سے مستثنیٰ کرنا چاہتے ہیں کہ اذان خطبہ اور خطبہ میں کوئی فصل نہیں ہونا چاہیے، نیز خطبہ نماز جمعہ کا ایک حصہ ہے، یعنی جمعہ کی اذان دوسری نمازوں کے خلاف طریقے پر مشروع ہوتی ہے۔ دوسری نمازوں کے لیے اذان اور نماز کے درمیان کچھ وقفہ ہوتا ہے لیکن جمعہ کی اذان خطبے سے متصل ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
903
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
916
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
916
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
916
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سائب بن یزید ؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن اذان کا آغاز اس وقت ہوتا تھا جب امام جمعہ کے دن (خطبے کے لیے) منبر پر بیٹھ جاتا۔ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر ؓ کے زمانے تک یہی معمول رہا۔ پھر جب حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا دور آیا اور لوگ بہت زیادہ ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا۔ یہ اذان مقام "زوراء" پر دی گئی، بعد میں یہی دستور قائم رہا۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے کتاب الأذان کے آغاز میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا: ’’اذان اور تکبیر کے درمیان کتنا فاصلہ ہونا چاہیے؟‘‘ وہاں آپ نے امام ترمذی ؒ کی بیان کردہ ایک روایت کی تائید کی تھی کہ اذان اور تکبیر کے درمیان اتنا توقف ہونا چاہیے کہ کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو جائے اور ضرورت مند اپنی حاجت پوری کرے۔ مذکورہ عنوان قائم کر کے امام بخاری ؒ اسے سابقہ عنوان سے مستثنیٰ کرنا چاہتے ہیں کہ اذان خطبہ اور خطبہ میں کوئی فصل نہیں ہونا چاہیے، نیز خطبہ نماز جمعہ کا ایک حصہ ہے، یعنی جمعہ کی اذان دوسری نمازوں کے خلاف طریقے پر مشروع ہوتی ہے۔ دوسری نمازوں کے لیے اذان اور نماز کے درمیان کچھ وقفہ ہوتا ہے لیکن جمعہ کی اذان خطبے سے متصل ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید ؓ سے یہ سنا تھا کہ جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان بن عفان ؓ کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔
حدیث حاشیہ:
تیسری اس کو اس لیے کہا کہ تکبیر بھی اذان ہے۔ حضرت عثمان ؓ کے بعد سے پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا کہ جمعہ میں ایک پہلی اذان ہوتی ہے پھر جب امام منبر پر جاتا ہے تو دوسری اذان دیتے ہیں پھر نماز شروع کرتے وقت تیسری اذان یعنی تکبیر کہتے ہیں گوحضرت عثمان ؓ کا فعل بدعت نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ خلفاءراشدین میں سے ہیں۔مگر انہوں نے یہ اذان ایک ضرورت سے بڑھائی کہ مدینہ کی آبادی دور دور تک پہنچ گئی تھی اور خطبہ کی اذان سب کے جمع ہونے کے لیے کافی نہ تھی، آتے آتے ہی نماز ختم ہو جاتی۔ مگر جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں بموجب سنت نبوی صرف خطبہ ہی کی اذان دینا چاہیے اورخوب بلند آواز سے نہ کہ جیسا جاہل لوگ خطبہ کے وقت آہستہ آہستہ اذان دیتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر ؓ سے نکالا تیسری اذان بدعت ہے۔ یعنی ایک نئی بات ہے جو آنحضرت ﷺ کے عہد میں نہ تھی اب اس سنت نبوی کو سوائے اہل حدیث کے اور کوئی بجا نہیں لاتے۔ جہاں دیکھو سنت عثمانی کا رواج ہے (مولانا وحید الزماں) حضرت عبد اللہ بن عمر نے جو اسے بدعت کہا اس کی توجیہ میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: فیحتمل أن یکون ذالك علی سبیل الإنکار ویحتمل أن یرید أنه لم یکن في زمن النبي صلی اللہ علیه وسلم وکل مالم یکن في زمنه یسمی بدعة۔(نیل الأوطار)یعنی احتمال ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے انکار کے طور پر ایسا کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ یہ اذان رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نہ تھی اور جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو ( لغوی حیثیت سے ) بدعت یعنی نئی چیز کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ بلغني أن أھل المغرب الأدنی الآن لا تأذین عندھم سوی مرة۔یعنی مجھے خبر پہنچی ہے کہ مغرب والوں کا عمل اب بھی صرف سنت نبوی یعنی ایک ہی اذان پر ہے۔ جمہورعلماءاہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ سنت نبوی پر عمل بہتر ہے اور اگر حضرت عثمان ؓ کے زمانے جیسی ضرورت محسوس ہو تو مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان کہہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اذان عثمانی کو بھی مسنون قرار دیا ان کا قول محل نظر ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں: أَنَّ الِاسْتِدْلَالَ عَلَى كَوْنِ الْأَذَانِ الثَّالِثِ الَّذِي هُوَ مِنْ مُجْتَهَدَاتِ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أمرا مسنونا ليس بتام ألا ترى أن بن عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ الْأَذَانُ الْأَوَّلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِدْعَةٌ فَلَوْ كَانَ هَذَا الِاسْتِدْلَالُ تَامًّا وَكَانَ الْأَذَانُ الثَّالِثُ أَمْرًا مَسْنُونًا لَمْ يُطْلِقْ عَلَيْهِ لَفْظَ الْبِدْعَةِ لَا عَلَى سَبِيلِ الْإِنْكَارِ وَلَا عَلَى سَبِيلِ غَيْرِ الْإِنْكَارِ فَإِنَّ الْأَمْرَ الْمَسْنُونَ لَا يَجُوزُ أَنْ يُطْلَقَ عَلَيْهِ لَفْظُ الْبِدْعَةِ بِأَيِّ مَعْنًى كَانَ فَتَفَكَّرْز( تحفة الأحوذي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Az-Zuhri (RA): I heard As-Saib bin Yazid, saying, "In the life-time of Allah's Apostle, and Abu Bakr (RA) and Umar, the Adhan for the Jumua prayer used to be pronounced after the Imam had taken his seat on the pulpit. But when the people increased in number during the caliphate of 'Uthman, he introduced a third Adhan (on Friday for the Jumua prayer) and it was pronounced at Az-Zaura' and that new state of affairs remained so in the succeeding years.