باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Saying "Ammaba'du" in the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
922.
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے سر کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اتنی طوالت کی کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ میرے پہلو میں پانی کا ایک مشکیزہ تھا، میں نے اسے کھولا اور اس سے پانی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس میں اللہ کی حمدوثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر "أمابعد" کہا۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ انصار کی کچھ عورتوں نے شور کرنا شروع کیا تو میں انہیں خاموش کرانے کے لیے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس اثنا میں میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو مجھے نہ دکھائی گئی ہو۔ میں نے اسے آج اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا۔ اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہارا مسیح دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب قبروں میں امتحان لیا جائے گا، چنانچہ تم میں سے (ہر) ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور اس (ہر ایک) سے پوچھا جائے گا کہ اس ’’شخصیت‘‘ کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ جو شخص ایمان یا یقین والا ہو گا تو وہ کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ ہیں جو ہمارے پاس ہدایت کی باتیں اور کھلی دلیلیں لے کر آئے۔ ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت کو قبول کیا، نیز ان کی پیروی اور تصدیق کی۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا کہ تو اطمینان و سکون سے سو جا۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقین و ایمان والا تھا۔ اور جو شخص منافقت یا شک رکھنے والا ہو گا۔ ہشام کو شک ہے۔ اس سے کہا جائے گا کہ تو اس شخص کے متعلق کیا معلومات رکھتا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میں تو کچھ نہیں جانتا۔ لوگوں سے ایک بات سنتا تھا تو میں بھی ویسے ہی کہہ دیتا تھا۔‘‘ ہشام کہتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے جو کہا میں نے اسے خوب یاد کر لیا، البتہ منافقین پر کی جانے والی سختیاں جو اس نے بیان کی تھیں وہ یاد نہ رہیں۔
تشریح:
امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خطبے میں أما بعد کہنا سنت ہے۔ حضرت داود ؑ کے متعلق قرآن میں ہے کہ انہیں فصل خطاب سے نوازا گیا تھا۔ (ص20:38) اس کا بھی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کو اپنے اصل خطاب سے أما بعد کے ذریعے سے الگ کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اسی مقصد کے لیے متعدد احادیث پیش کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس انداز کو عادتاً اختیار فرمایا ہے۔ چونکہ امام بخاری ؒ کو ان کی شرط کے مطابق کوئی خاص حدیث خطبۂ جمعہ سے متعلق نہ مل سکی، اس لیے انہوں نے دوسری احادیث نقل کر دیں جن سے مقصد مذکورہ حاصل ہو اور یہ انداز جمعہ کے لیے قابل عمل ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الکسوف میں ذکر ہو گی۔ بإذن اللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
909
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
922
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
922
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
922
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ دیکھیے، (حدیث: 927)
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئی جبکہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دریافت کیا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے اپنے سر کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ فرمایا۔ میں نے عرض کیا: کوئی نشانی ہے؟ تو انہوں نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺ نے اتنی طوالت کی کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ میرے پہلو میں پانی کا ایک مشکیزہ تھا، میں نے اسے کھولا اور اس سے پانی لے کر اپنے سر پر ڈالنے لگی۔ پھر رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہو چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے خطبہ دیا۔ اس میں اللہ کی حمدوثنا بیان کی جس کا وہ مستحق ہے، پھر "أمابعد" کہا۔ وہ (حضرت اسماء ؓ ) کہتی ہیں کہ انصار کی کچھ عورتوں نے شور کرنا شروع کیا تو میں انہیں خاموش کرانے کے لیے ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ اس اثنا میں میں نے حضرت عائشہ ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو مجھے نہ دکھائی گئی ہو۔ میں نے اسے آج اپنی اسی جگہ سے دیکھ لیا ہے حتی کہ میں نے جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا۔ اور میری طرف یہ وحی کی گئی کہ تمہارا مسیح دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب قبروں میں امتحان لیا جائے گا، چنانچہ تم میں سے (ہر) ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور اس (ہر ایک) سے پوچھا جائے گا کہ اس ’’شخصیت‘‘ کے متعلق تم کیا جانتے ہو؟ جو شخص ایمان یا یقین والا ہو گا تو وہ کہے گا کہ یہ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ ہیں جو ہمارے پاس ہدایت کی باتیں اور کھلی دلیلیں لے کر آئے۔ ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت کو قبول کیا، نیز ان کی پیروی اور تصدیق کی۔ پھر اس شخص سے کہا جائے گا کہ تو اطمینان و سکون سے سو جا۔ ہم جانتے تھے کہ تو یقین و ایمان والا تھا۔ اور جو شخص منافقت یا شک رکھنے والا ہو گا۔ ہشام کو شک ہے۔ اس سے کہا جائے گا کہ تو اس شخص کے متعلق کیا معلومات رکھتا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ میں تو کچھ نہیں جانتا۔ لوگوں سے ایک بات سنتا تھا تو میں بھی ویسے ہی کہہ دیتا تھا۔‘‘ ہشام کہتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت منذر نے جو کہا میں نے اسے خوب یاد کر لیا، البتہ منافقین پر کی جانے والی سختیاں جو اس نے بیان کی تھیں وہ یاد نہ رہیں۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ خطبے میں أما بعد کہنا سنت ہے۔ حضرت داود ؑ کے متعلق قرآن میں ہے کہ انہیں فصل خطاب سے نوازا گیا تھا۔ (ص20:38) اس کا بھی تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کو اپنے اصل خطاب سے أما بعد کے ذریعے سے الگ کیا جائے۔ امام بخاری ؒ نے اسی مقصد کے لیے متعدد احادیث پیش کی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس انداز کو عادتاً اختیار فرمایا ہے۔ چونکہ امام بخاری ؒ کو ان کی شرط کے مطابق کوئی خاص حدیث خطبۂ جمعہ سے متعلق نہ مل سکی، اس لیے انہوں نے دوسری احادیث نقل کر دیں جن سے مقصد مذکورہ حاصل ہو اور یہ انداز جمعہ کے لیے قابل عمل ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الکسوف میں ذکر ہو گی۔ بإذن اللہ
ترجمۃ الباب:
حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺسے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
اور محمود بن غیلان (امام بخاری ؓ کے استاذ) نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بن ت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر ؓ نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ ؓ کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے (اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ) یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا (کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا) اسماء نے کہا کہ نبی کریم ﷺ دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا ا بعد! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں (تاکہ رسول اللہ ﷺ کی بات اچھی طرح سن سکوں مگرمیں آپ کا کلام نہ سن سکی) تو پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایا گیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہو گی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا (ہشام کو شک تھا) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہاتھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث یہاں اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آنحضور ﷺ نے اپنے خطبہ میں اما بعد کا لفظ استعمال فرمایا۔ حضرت امام بخاری ؒ بتانا چاہتے ہیں کہ خطبہ میں أما بعد کہنا سنت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داؤد ؑ نے یہ کہا تھا۔ آپ کا ''فصل خطاب'' بھی یہی ہے پہلے خداوند قدوس کی حمد وتعریف پھر نبی کریم ﷺ پر صلوة و سلام بھیجا گیا اور أما بعد نے اس تمہید کو اصل خطاب سے جدا کر دیا۔ اما بعد کا مطلب یہ ہے کہ حمد وصلوة کے بعد اب اصل خطبہ شروع ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Asma' bint Abi Bakr As-Siddiq said, "I went to 'Aishah and the people were offering Salat. I asked her, 'What is wrong with the people ?' She pointed towards the sky with her head. I asked her, 'Is there a sign ?' 'Aishah nodded with her head meaning 'Yes'." Asma' added, "Allah's Messenger (ﷺ) prolonged the Salat to such an extent that I fainted. There was a waterskin by my side and I opened it and poured some water on my head. When Allah's Messenger (ﷺ) finished Salat, and the solar eclipse had cleared, the Prophet (ﷺ) addressed the people and praised Allah as He deserves and said, 'Amma ba'du'." Asma' further said, "Some Ansari women started talking, so I turned to them in order to make them quiet. I asked 'Aishah what the Prophet (ﷺ) had said. 'Aishah said: 'He said, 'I have seen things at this place of mine which were never shown to me before; (I have seen) even Paradise and Hell. And, no doubt it has been revealed to me that you (people) will be put in trial in your graves like or nearly like the trial of Masih Ad-Dajjal. (The angels) will come to everyone of you and ask him, 'What do you know about this man (Prophet Muhammad (ﷺ)) ?" The faithful believer or firm believer (Hisham was in doubt which word the Prophet (ﷺ) used), will say, 'He is Allah's Messenger (ﷺ) and he is Muhammad (ﷺ) who came to us with clear evidences and guidance. So we believed him, accepted his teachings and followed and trusted his teaching.' Then the angels will tell him to sleep (in peace) as they have come to know that he was a believer. But the hypocrite or a doubtful person (Hisham is not sure as to which word the Prophet (ﷺ) used), will be asked what he knew about this man (Prophet Muhammed (ﷺ)). He will say, 'I do not know but I heard the people saying something (about him) so I said the same' " Hisham added, "Fatima told me that she remembered that narration completely by heart except that she said about the hypocrite or a doubtful person that he will be punished severely."