باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Saying "Ammaba'du" in the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
923.
حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی اور چیز لائی گئی جسے آپ نے تقسیم فر دیا لیکن آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ جن کو آپ نے نہیں دیا وہ ناخوش ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’أما بعد! اللہ کی قسم! میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا لیکن جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں، نیز کچھ لوگوں کو اس لیے دیتاہوں کہ ان میں بے صبری اور بوکھلاہٹ دیکھتا ہوں اور کچھ کو ان کی سیرچشمی اور بھلائی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ عمرو بن تغلب بھی انہی میں سے ہے۔‘‘ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔
تشریح:
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کو نہ تو کسی کی ناراضی گوارا تھی اور نہ آپ کسی کی دل شکنی ہی کرتے تھے، نیز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ سے دلی محبت اور قلبی تعلق تھا۔ اس حدیث کی مکمل وضاحت کتاب فرض الخمس میں آئے گی۔ بإذن اللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
910
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
923
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
923
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
923
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ دیکھیے، (حدیث: 927)
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عمرو بن تغلب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال یا کوئی اور چیز لائی گئی جسے آپ نے تقسیم فر دیا لیکن آپ نے کچھ لوگوں کو دیا اور کچھ کو نہ دیا۔ پھر آپ کو اطلاع ملی کہ جن کو آپ نے نہیں دیا وہ ناخوش ہیں۔ آپ نے اللہ کی حمدوثنا کے بعد فرمایا: ’’أما بعد! اللہ کی قسم! میں کسی کو دیتا ہوں اور کسی کو نہیں دیتا لیکن جسے چھوڑ دیتا ہوں وہ میرے نزدیک اس شخص سے زیادہ عزیز ہوتا ہے جسے دیتا ہوں، نیز کچھ لوگوں کو اس لیے دیتاہوں کہ ان میں بے صبری اور بوکھلاہٹ دیکھتا ہوں اور کچھ کو ان کی سیرچشمی اور بھلائی کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہوں جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ عمرو بن تغلب بھی انہی میں سے ہے۔‘‘ ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں یہ نہیں چاہتا کہ رسول اللہ ﷺ کے اس کلمے کے عوض مجھے سرخ اونٹ ملیں۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے رسول اللہ ﷺ کے خلق عظیم کا پتہ چلتا ہے کہ آپ کو نہ تو کسی کی ناراضی گوارا تھی اور نہ آپ کسی کی دل شکنی ہی کرتے تھے، نیز صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی آپ سے دلی محبت اور قلبی تعلق تھا۔ اس حدیث کی مکمل وضاحت کتاب فرض الخمس میں آئے گی۔ بإذن اللہ
ترجمۃ الباب:
حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺسے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیاکہ ہم نے عمرو بن تغلب ؓ سے سنا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد وتعریف کی پھر فرمایا: أما بعد! خدا کی قسم میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالی نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کر تاہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ خدا کی قسم میرے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔
حدیث حاشیہ:
سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت ﷺ کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ ﷺ نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا ( وحیدی ) آپ ﷺ نے یہاں بھی لفظ أما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr bin Taghlib (RA): Some property or something was brought to Allah's Apostle (ﷺ) and he distributed it. He gave to some men and ignored the others. Later he got the news of his being admonished by those whom he had ignored. So he glorified and praised Allah and said, "Amma ba'du. By Allah, I may give to a man and ignore another, although the one whom I ignore is more beloved to me than the one whom I give. But I give to some people as I feel that they have no patience and no contentment in their hearts and I leave those who are patient and self-contented with the goodness and wealth which Allah has put into their hearts and 'Amr bin Taghlib is one of them." Amr added, By Allah! Those words of Allah's Apostle (ﷺ) are more beloved to me than the best red camels.