باب: خطبہ میں اللہ کی حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا
)
Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: Saying "Ammaba'du" in the Khutba)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
924.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: ’’أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔‘‘ اس کی یونس بن یزید نے متابعت کی ہے۔‘‘
تشریح:
اس حدیث میں أما بعد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التہجد میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ نوٹ: یونس بن یزید کی متابعت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:520/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
911
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
924
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
924
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
924
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ دیکھیے، (حدیث: 927)
اس کو عکرمہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے نکلے تو مسجد میں آ کر نماز پڑھی۔ کچھ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ صبح کے وقت لوگ باتیں کرنے لگے تو دوسرے روز ان سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے اور انہوں نے بھی رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز ادا کی۔ صبح کو لوگوں نے ایک دوسرے سے بیان کیا تو تیسری رات ان سے بھی زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو لوگوں نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر جب چوتھی رات ہوئی تو لوگ اس قدر جمع ہوئے کہ مسجد میں گنجائش نہ رہی۔ رسول اللہ ﷺ نماز فجر کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب فجر کی نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف توجہ فرمائی۔ تشہد، یعنی خطبہ پڑھتے ہوئے فرمایا: ’’أمابعد! بےشک تمہارا اجتماع مجھ سے مخفی نہ تھا لیکن مجھے خوف ہوا کہ مبادا تم پر فرض ہو جائے تو پھر تم اس کے ادا کرنے سے عاجز ہو جاؤ گے۔‘‘ اس کی یونس بن یزید نے متابعت کی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں أما بعد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ امام بخاری ؒ نے صرف اسی مقصد کے پیش نظر اس حدیث کو بیان کیا ہے۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب التہجد میں بیان کریں گے۔ إن شاءاللہ نوٹ: یونس بن یزید کی متابعت کو امام مسلم نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:520/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺسے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ ؓ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ صبح کو ان صحابہ (رضوان اللہ علہیم اجمعین) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ (دوسرے دن) اس سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور جب رسول اللہ ﷺ اٹھے تو صحابہ ؓ نے آپ کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم ﷺ نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ اما بعد! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کئی جگہ آئی ہے یہاں اس مقصد کے تحت لائی گئی کہ آنحضرت ﷺ نے وعظ میں لفظ أما بعد استعمال فرمایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Once in the middle of the night Allah's Apostle (ﷺ) went out and prayed in the mosque and some men prayed with him. The next morning the people spoke about it and so more people gathered and prayed with him (in the second night). They circulated the news in the morning, and so, on the third night the number of people increased greatly. Allah's Apostle (ﷺ) came out and they prayed behind him. On the fourth night the mosque was overwhelmed by the people till it could not accommodate them. Allah's Apostle (ﷺ) came out only for the Fajr prayer and when he finished the prayer, he faced the people and recited "Tashah-hud" (I testify that none has the right to be worshipped but Allah and that Muhammad is His Apostle) (ﷺ) , and then said, "Amma ba'du. Verily your presence (in the mosque at night) was not hidden from me, but I was afraid that this prayer (Prayer of Tahajjud) might be made compulsory and you might not be able to carry it out."