Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: An hour (opportune-lucky time) on Friday)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
935.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران وعظ فرمایا: ’’اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔
تشریح:
(1) اس گھڑی کی تعیین کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے 42 اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان میں دو قول زیادہ مشہور ہیں: ٭ وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر اختتام صلاۃِ جمعہ تک ہے۔ اس قول کو امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیان کیا ہے۔ ٭ عصر کے بعد سے لے کر غروب شمس تک ہے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی جبکہ اس گھڑی کے متعلق ہے کہ انسان اس وقت حالت نماز میں ہوتا ہے۔ یہی اشکال ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جو نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ محب طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے متعلق زیادہ صحیح حدیث، حدیث ابی موسیٰ ہے اور سب سے زیادہ مشہور قول عبداللہ بن سلام ؓ کا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ ان دونوں یا کسی ایک کے مطابق ہیں یا وہ ضعیف الاسناد یا موقوف روایات ہیں۔ امام بیہقی ؒ نے امام مسلم سے نقل کیا ہے کہ حدیث ابی موسیٰ اس بات میں سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے اور یہی بات خود امام بیہقی، ابن العربی اور جماعت محدثین نے کہی ہے۔ امام قرطبی ؒ نے کہا ہے کہ حدیث، اختلاف کے وقت بمنزلہ نص کے فیصلہ کن ہے، لہذا دوسرے احتمالات کی طرف التفات نہ کیا جائے، جبکہ بعض دوسرے حضرات نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ امام ترمذی نے امام احمد ؒ سے نقل کیا ہے کہ اکثر احادیث سے عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن سلام کا قول أثبت شئي في هذا الباب ہے۔ (فتح الباري:542/2) (3) حافظ ابن حجرؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں لیلۃ القدر کے مخفی رکھنے کی طرح یہ فائدہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے بکثرت نوافل ادا کیے جائیں اور دعائیں مانگی جائیں۔ اس صورت میں ضرور وہ گھڑی مل جائے گی جس کا وہ متلاشی ہے۔ اگر انہیں ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسا کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے، اس لیے اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو اسے کسی محدود مدت میں حاصل کرنے پر بھروسا کیے ہوئے ہے۔ (فتح الباري:542/2) (4) واضح رہے کہ ساعت موجودہ اس شخص کے لیے ہے جو نماز کا پابند ہو نہ کہ وہ شخص جو ساعۃ اجابت کی وجہ سے صرف جمعہ پڑھنے کے لیے آ جائے اور باقی نمازوں کو پابندی سے ادا نہ کرے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
922
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
935
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
935
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
935
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اس سے مراد وہ گھڑی ہے جس میں انسان کی دعا قبول ہوتی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن دوران وعظ فرمایا: ’’اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے۔‘‘ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس گھڑی کی تعیین کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ نے 42 اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان میں دو قول زیادہ مشہور ہیں: ٭ وہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر اختتام صلاۃِ جمعہ تک ہے۔ اس قول کو امام مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے بیان کیا ہے۔ ٭ عصر کے بعد سے لے کر غروب شمس تک ہے۔ اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ عصر کے بعد کوئی نماز نہیں ہوتی جبکہ اس گھڑی کے متعلق ہے کہ انسان اس وقت حالت نماز میں ہوتا ہے۔ یہی اشکال ایک صحابی نے دوسرے صحابی کے سامنے رکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نہیں ہے کہ جو نماز کا انتظار کرتا ہے وہ نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ نے علامہ محب طبری کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کے متعلق زیادہ صحیح حدیث، حدیث ابی موسیٰ ہے اور سب سے زیادہ مشہور قول عبداللہ بن سلام ؓ کا ہے۔ ان کے علاوہ جتنے بھی اقوال ہیں وہ ان دونوں یا کسی ایک کے مطابق ہیں یا وہ ضعیف الاسناد یا موقوف روایات ہیں۔ امام بیہقی ؒ نے امام مسلم سے نقل کیا ہے کہ حدیث ابی موسیٰ اس بات میں سب سے زیادہ عمدہ اور صحیح ہے اور یہی بات خود امام بیہقی، ابن العربی اور جماعت محدثین نے کہی ہے۔ امام قرطبی ؒ نے کہا ہے کہ حدیث، اختلاف کے وقت بمنزلہ نص کے فیصلہ کن ہے، لہذا دوسرے احتمالات کی طرف التفات نہ کیا جائے، جبکہ بعض دوسرے حضرات نے حضرت عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کو ترجیح دی ہے۔ امام ترمذی نے امام احمد ؒ سے نقل کیا ہے کہ اکثر احادیث سے عبداللہ بن سلام ؓ کے قول کی تائید ہوتی ہے۔ علامہ ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ عبداللہ بن سلام کا قول أثبت شئي في هذا الباب ہے۔ (فتح الباري:542/2) (3) حافظ ابن حجرؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں لیلۃ القدر کے مخفی رکھنے کی طرح یہ فائدہ ہے کہ اس کی تلاش کے لیے بکثرت نوافل ادا کیے جائیں اور دعائیں مانگی جائیں۔ اس صورت میں ضرور وہ گھڑی مل جائے گی جس کا وہ متلاشی ہے۔ اگر انہیں ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسا کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے، اس لیے اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو اسے کسی محدود مدت میں حاصل کرنے پر بھروسا کیے ہوئے ہے۔ (فتح الباري:542/2) (4) واضح رہے کہ ساعت موجودہ اس شخص کے لیے ہے جو نماز کا پابند ہو نہ کہ وہ شخص جو ساعۃ اجابت کی وجہ سے صرف جمعہ پڑھنے کے لیے آ جائے اور باقی نمازوں کو پابندی سے ادا نہ کرے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے امام مالک ؓ سے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان سے عبد الرحمن اعرج نے، ان سے ابو ہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔
حدیث حاشیہ:
س گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے بعض روایات میں اس کے لیے وہ وقت بتلایا گیاہے جب امام نماز جمعہ شروع کر تا ہے۔ گویا نماز ختم ہونے تک درمیان میں یہ گھڑی آتی ہے بعض روایات میں طلوع فجر سے اس کا وقت بتلایاگیا ہے۔ بعض روایات میں عصر سے مغرب تک کا وقت اس کے لیے بتلایا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں بہت تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پر روشنی ڈالی ہے اور اس بارے میں علمائے اسلام وفقہاء عظام کے143قوال کیے ہیں۔ امام شوکانی نے علامہ ابن منیر کا خیال ان لفظوں میں نقل فرمایا ہے: قَالَ ابْنُ الْمُنِيرِ: إذَا عُلِمَ أَنَّ فَائِدَة الْإِبْهَام لِهَذِهِ السَّاعَة وَلِلَيْلَةِ الْقَدْر بَعْثَ الدَّوَاعِي عَلَى الْإِكْثَار مِنْ الصَّلَاة وَالدُّعَاءِ، وَلَوْ وَقَعَ الْبَيَان لَهَا لَاتَّكَلَ النَّاس عَلَى ذَلِكَ وَتَرَكُوا مَا عَدَاهَا، فَالْعَجَب بَعَدَ ذَلِكَ مِمَّنْ يَتَّكِل فِي طَلَب تَحْدِيدهَا. وَقَالَ فِي مَوْضِع آخَر: يَحْسُن جَمْع الْأَقْوَال فَتَكُون سَاعَة الْإِجَابَة وَاحِدَة مِنْهَا لَا بِعَيْنِهَا، فَيُصَادِفهَا مَنْ اجْتَهَدَ فِي الدُّعَاء فِي جَمِيعهَا.(نیل الأوطار)یعنی اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں، اس صورت میں ضرورضرور وہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں اسے حاصل ہوگی۔ اگر ان کو ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے۔ پس تعجب ہے اس شخص پر جواسے محدود وقت میں پالینے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ بہتر ہے کہ مذکورہ بالا اقوال کو بایں صورت جمع کیا جائے کہ اجابت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جاسکتا پس جوتمام اوقات میں اس کے لیے کوشش کرے گا وہ ضرور اسے کسی نہ کسی وقت میں پالے گا۔ امام شوکانی ؒ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے: وَالْقَوْل بِأَنَّهَا آخِر سَاعَة مِنْ الْيَوْم هُوَ أَرْجَحُ الْأَقْوَال، وَإِلَيْهِ ذَهَبَ الْجُمْهُور من الصحابة والتابعین والأئمةالخ۔یعنی اس بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ گھڑی آخر دن میں بعد عصر آتی ہے اور جمہور صحابہ وتابعین وائمہ دین کا یہی خیال ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) talked about Friday and said, "There is an hour (opportune time) on Friday and if a Muslim gets it while praying and asks something from Allah, then Allah will definitely meet his demand." And he (the Prophet) pointed out the shortness of that time with his hands.