Sahi-Bukhari:
Friday Prayer
(Chapter: To offer Salat before and after the Jumu'ah prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
937.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، نیز مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں اور نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں جمعہ سے پہلے نماز کا ذکر کیا ہے لیکن پیش کردہ حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس کے متعلق علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اصلاً ظہر و جمعہ کی حیثیت برابر ہونے کے اعتبار سے کسی دوسری دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور بعد والی سنتوں کی اہمیت کے پیش نظر حدیث میں ان کے ذکر کا حوالہ دیا ہے۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جمعہ سے قبل لمبی نماز پڑھتے اور جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت ادا کرتے تھے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حوالہ دیتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد جمعہ کا وقت شروع ہونے کے بعد نماز پڑھنا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ زوال شمس کے بعد تشریف لاتے تو خطبۂ جمعہ میں مشغول ہو جاتے تھے، اس لیے رسول اکرم ﷺ سے تو اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اور اگر اس سے مراد وقت شروع ہونے سے پہلے نماز پڑھنا ہے تو یہ مطلق نوافل ہیں، سنن رواتبہ نہیں، نیز فرماتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے دو رکعت کے متعلق سب سے زیادہ قوی روایت ابن حبان کی ہے جس میں عبداللہ بن زبیر ؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔ (صحیح ابن حبان(الإحسان)77/4، والصحیحة للألباني، حدیث:232) شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث، یعنی ’’ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے‘‘ والی حدیث سے جمعہ سے پہلے دو سنتیں پڑھنے کا استدلال باطل ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک اذان اور اقامت ہوتی تھی اور اس دوران میں آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ امام بوصیری سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس بارے میں وارد تمام روایات ضعیف ہیں۔ اس حدیث سے فرضی نمازوں سے قبل اور اذان کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے جبکہ جمعہ کی اذان کے بعد خطبہ ہے نہ کہ نماز۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة :465/1) یاد رہے کہ شیخ ؒ کا مقصود مطلق نوافل کی نفی نہیں بلکہ صرف سنت مؤکدہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ (2) ہمارے نزدیک جمعہ سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھنے کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ خطبۂ جمعہ شروع ہونے سے قبل غیر محدود نوافل پڑھے جا سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ان کی حد مقرر نہیں، بلکہ انسان کی استطاعت پر موقوف ہیں، یعنی جس قدر اسے میسر ہو نوافل پڑھ سکتا ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:1987 (857)) اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ سے پہلے نوافل پڑھنے کی کوئی متعین حد نہیں۔ اگر کوئی دوران خطبہ میں آتا ہے تو اسے صرف دو رکعت پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے اور ان دونوں رکعات کو اختصار کے ساتھ پڑھے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2018 (875)) جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کے متعلق احادیث ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات ادا کرے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2037 ،2038 (881)) لیکن رسول اللہ ﷺ گھر میں دو رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کی ترجمۃ الباب کے تحت حدیث میں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:937) اس لیے اگر مسجد میں جمعہ کے بعد نماز پڑھنی ہے تو دو، دو کر کے چار رکعت پڑھنا افضل ہے۔ اور اگر گھر میں پڑھنی ہے تو دو رکعت ادا کی جائیں۔ واللہ أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
924
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
937
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
937
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
937
تمہید کتاب
جمعہ ایک اسلامی تہوار ہے۔ اسے دور جاہلیت میں العروبة کہا جاتا تھا۔ دور اسلام میں سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے انصار مدینہ کے ہمراہ نماز اور خطبۂ جمعہ کا اہتمام کیا۔ چونکہ اس میں لوگ خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں، اس لیے اس کا نام جمعہ رکھا گیا۔ دن رات کی نمازوں کے علاوہ کچھ نمازیں ایسی ہیں جو صرف اجتماعی طور پر ہی ادا کی جاتی ہیں۔ وہ اپنی مخصوص نوعیت اور امتیازی شان کی وجہ سے اس امت کا شعار ہیں۔ ان میں سے ایک نماز جمعہ ہے جو ہفتہ وار اجتماع سے عبارت ہے۔ نماز پنجگانہ میں ایک محدود حلقے کے لوگ، یعنی ایک محلے کے مسلمان جمع ہو سکتے ہیں، اس لیے ہفتے میں ایک ایسا دن رکھا گیا ہے جس میں پورے شہر اور مختلف محلوں کے مسلمان ایک خاص نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد میں جمع ہوں۔ ایسے بڑے اجتماع کے لیے ظہر کا وقت ہی مناسب تھا تاکہ تمام مسلمان اس میں شریک ہو سکیں، پھر نماز جمعہ صرف دو رکعت رکھی گئی اور اس عظیم اجتماع کو تعلیمی اور تربیتی لحاظ سے زیادہ مفید اور مؤثر بنانے کے لیے خطبۂ وعظ و نصیحت کو لازمی قرار دیا گیا۔ اس کے لیے ہفتے کے سات دنوں میں سے بہتر اور باعظمت دن جمعہ کو مقرر کیا گیا۔ اس دن اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت بندوں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی ہے۔ اس دن اللہ کی طرف سے بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ہیں اور آئندہ رونما ہونے والے ہیں۔ اس اجتماع میں شرکت و حاضری کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ نماز سے پہلے اس اجتماع میں شرکت کے لیے غسل کرنے، صاف ستھرے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کی ترغیب بلکہ تاکید کی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کا یہ عظیم ہفتہ وار اجتماع توجہ الی اللہ اور ذکر و دعا کی باطنی برکات کے علاوہ ظاہری حیثیت سے بھی خوش منظر اور پربہار ہو۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی مایۂ ناز تالیف "زاد المعاد" میں جمعہ کی 32 خصوصیات ذکر کی ہیں۔ ان میں چند ایک حسب ذیل ہیں: ٭ اسے یوم عید قرار دیا گیا ہے۔ ٭ اس دن غسل، خوشبو، مسواک اور اچھے کپڑے زیب تن کرنے کی تاکید ہے۔ ٭ اس دن مساجد کو معطر کرنے کا حکم ہے۔ ٭ نمازی حضرات کا جمعہ کی ادائیگی کے لیے صبح سویرے مسجد میں آ کر خطیب کے آنے تک خود کو عبادت میں مصروف رکھنا اللہ کو بہت محبوب ہے۔ ٭ اس دن ایسی گھڑی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ ٭ اس دن کا خصوصیت کے ساتھ روزہ رکھنا منع ہے۔ (زاد المعاد:1/421،375،وفتح الباری:2/450)امام بخاری رحمہ اللہ نے جمعہ کے احکام بیان کرنے کے لیے بڑا عنوان کتاب الجمعۃ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت چالیس کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوانات رکھے ہیں جن میں فرضیت جمعہ، فضیلت جمعہ، آداب جمعہ (ان میں غسل کرنا، خوشبو اور تیل لگانا، صاف ستھرے اچھے کپڑے پہننا، مسواک کرنا اور اس کے لیے آرام و سکون سے آنا وغیرہ شامل ہیں۔) آداب صلاۃ جمعہ، شہروں اور بستیوں میں مشروعیت جمعہ، آداب خطبۂ جمعہ، اذان جمعہ، سامعین، مؤذن اور خطیب کے آداب بیان کرتے ہیں۔ آخر میں جمعہ سے متعلق متفرق مسائل کو ذکر کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بڑے عنوان کتاب الجمعۃ میں 79 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 64 موصول اور 15 معلق اور متابعات ہیں۔ ان میں 36 مکرر اور 43 احادیث خالص اور صافی ہیں، نیز اس میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے 14 آثار بھی نقل کیے ہیں۔ واضح رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ 12 احادیث کے علاوہ باقی تمام احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی وہبی ذہانت کو بروئے کار لاتے ہوئے بے شمار حدیثی فوائد اور اسنادی لطائف بیان کیے ہیں جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو پیش نظر رکھ کر اس (کتاب الجمعۃ) کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے بیان کردہ علوم و معارف کا اندازہ ہو سکے اور اس سے استفادہ اور افادہ میسر ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قیامت کے دن محدثین کے زمرے میں شامل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک جمعہ کے بعد سنتوں کی اہمیت زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عنوان میں انہیں پہلے ذکر کیا ہے، حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے پہلی سنتوں کو پہلے اور بعد والی سنتوں کو بعد میں ذکر کرنا چاہیے تھا کیونکہ بعد والی سنتیں نصِ حدیث سے ثابت ہیں اور پہلے والی سنتوں کو نماز ظہر پر قیاس کرتے ہوئے ثابت کیا ہے، اس لیے یہ ترتیب رکھی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعتیں اور اس کے بعد دو رکعتیں، نیز مغرب کے بعد اپنے گھر میں دو رکعتیں اور نماز عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے تاآنکہ گھر لوٹ آتے، واپس آ کر دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں جمعہ سے پہلے نماز کا ذکر کیا ہے لیکن پیش کردہ حدیث میں اس کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس کے متعلق علامہ ابن منیر ؒ نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اصلاً ظہر و جمعہ کی حیثیت برابر ہونے کے اعتبار سے کسی دوسری دلیل کی ضرورت محسوس نہیں کی، اور بعد والی سنتوں کی اہمیت کے پیش نظر حدیث میں ان کے ذکر کا حوالہ دیا ہے۔ حضرت نافع فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جمعہ سے قبل لمبی نماز پڑھتے اور جمعہ کے بعد اپنے گھر میں دو رکعت ادا کرتے تھے اور پھر رسول اللہ ﷺ کے عمل کا حوالہ دیتے تھے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اگر اس سے مراد جمعہ کا وقت شروع ہونے کے بعد نماز پڑھنا ہے تو یہ درست نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ زوال شمس کے بعد تشریف لاتے تو خطبۂ جمعہ میں مشغول ہو جاتے تھے، اس لیے رسول اکرم ﷺ سے تو اس کا ثبوت نہیں ہے۔ اور اگر اس سے مراد وقت شروع ہونے سے پہلے نماز پڑھنا ہے تو یہ مطلق نوافل ہیں، سنن رواتبہ نہیں، نیز فرماتے ہیں کہ جمعہ سے پہلے دو رکعت کے متعلق سب سے زیادہ قوی روایت ابن حبان کی ہے جس میں عبداللہ بن زبیر ؓ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں ہیں۔ (صحیح ابن حبان(الإحسان)77/4، والصحیحة للألباني، حدیث:232) شیخ البانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث، یعنی ’’ہر فرض نماز سے پہلے دو رکعتیں پڑھنے‘‘ والی حدیث سے جمعہ سے پہلے دو سنتیں پڑھنے کا استدلال باطل ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں ایک اذان اور اقامت ہوتی تھی اور اس دوران میں آپ ﷺ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ امام بوصیری سے بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس بارے میں وارد تمام روایات ضعیف ہیں۔ اس حدیث سے فرضی نمازوں سے قبل اور اذان کے بعد نماز پڑھنا ثابت ہوتا ہے جبکہ جمعہ کی اذان کے بعد خطبہ ہے نہ کہ نماز۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة :465/1) یاد رہے کہ شیخ ؒ کا مقصود مطلق نوافل کی نفی نہیں بلکہ صرف سنت مؤکدہ کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔ (2) ہمارے نزدیک جمعہ سے پہلے اور اس کے بعد نماز پڑھنے کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ خطبۂ جمعہ شروع ہونے سے قبل غیر محدود نوافل پڑھے جا سکتے ہیں کیونکہ حدیث میں ان کی حد مقرر نہیں، بلکہ انسان کی استطاعت پر موقوف ہیں، یعنی جس قدر اسے میسر ہو نوافل پڑھ سکتا ہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:1987 (857)) اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ سے پہلے نوافل پڑھنے کی کوئی متعین حد نہیں۔ اگر کوئی دوران خطبہ میں آتا ہے تو اسے صرف دو رکعت پڑھنے کی اجازت ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ دو رکعتیں ادا کرے اور ان دونوں رکعات کو اختصار کے ساتھ پڑھے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2018 (875)) جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھنے کے متعلق احادیث ہیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز جمعہ ادا کرے تو اس کے بعد چار رکعات ادا کرے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث:2037 ،2038 (881)) لیکن رسول اللہ ﷺ گھر میں دو رکعت پڑھتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ کی ترجمۃ الباب کے تحت حدیث میں ہے، (صحیح البخاري، الجمعة، حدیث:937) اس لیے اگر مسجد میں جمعہ کے بعد نماز پڑھنی ہے تو دو، دو کر کے چار رکعت پڑھنا افضل ہے۔ اور اگر گھر میں پڑھنی ہے تو دو رکعت ادا کی جائیں۔ واللہ أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ نے نافع سے خبر دی، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعت، اس کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں جب گھر واپس ہوتے تب پڑھا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
چونکہ ظہر کی جگہ جمعہ کی نماز ہے، اس لیے حضرت امام بخاری ؒ نے ارشاد فرمایا کہ جو سنتیں ظہر سے پہلے اور پیچھے مسنون ہیں، وہی جمعہ کے پہلے اور پیچھے بھی مسنون ہیں۔ بعض دوسری احادیث میں ان سنتوں کا ذکر بھی آیا ہے جمعہ کے بعد کی سنتیں اکثر آپ ﷺ گھر میں پڑھا کر تے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin Umar (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to pray two Rakat before the Zuhr prayer and two Rakat after it. He also used to pray two Rakat after the Maghrib prayer in his house, and two Rakat after the 'Isha' prayer. He never prayed after Jumua prayer till he departed (from the Mosque), and then he would pray two Rakat at home.