Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: A display of spears and shields on 'Eid Festival day)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
950.
(حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ) چونکہ وہ عید کا دن تھا، اس لیے حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی یا آپ نے خود فرمایا: ’’کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ کے دوش پر تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بنو ارفدہ! اپنا کام جاری رکھو۔‘‘ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’بس تجھے کافی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اب چلی جاؤ۔‘‘
تشریح:
(1) یہ دراصل ایک ہی حدیث ہے۔ چونکہ اس میں دو قسم کے مضامین تھے، اس لیے اس حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلی حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ انصار کی بچیاں عید کے دن گیت گا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران میں ایسا ہوا اور وہ گانے کے ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:987) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے جس میں وہ خوش ہوتے اور جشن مناتے ہیں اور ہماری عید آج کے دن ہے۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3931) (2) اس حدیث سے بعض روشن خیال حضرات نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ گانے والی بچیاں پیشہ ور گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے اسلاف کی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار پڑھ رہی تھیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں گانے بجانے کے فن سے ناواقف تھیں جس طرح عام طور پر گانے بجانے کا کام کرنے والی لڑکیاں واقف ہوا کرتی ہیں۔ مغنیہ اسے کہتے ہیں جو خاص طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں لے اور زیروبم ہوتا ہے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ واقعے میں ایسا نہیں تھا۔ اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف بجایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ٭ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گھنگرو کی جھنکار نہیں ہوتی۔ ٭ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں، کیونکہ آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن مجید کی واضح نصوص موجود ہیں۔ قرآن کریم نے انہیں "لهو الحدیث" کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ ٭ رزمیہ، یعنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار ہوں، بزمیہ اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ گائی جائیں۔ ٭ جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں اس طرح خوشی کا اظہار کر سکتی ہیں۔ ٭ یہ اہتمام بھی ایسے حلقے میں ہونا چاہیے جہاں اپنے ہی عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ گیت اور اشعار خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ اس قسم کے اشعار پڑھنا حرام اور ناجائز ہے۔ ٭ اس کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کا مباح کام کرنا بھی ناجائز قرار پائے گا۔ مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ (3) اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچیوں کے گاتے اور دف بجاتے وقت اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا اور بعض روایات کے مطابق اسے کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی ظاہر فرما دی اور یہ بھی تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں گانا اور دف بجانا بھی اباحت مرجوح کے درجے میں تھا۔ واللہ أعلم۔ (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے دوسرے حصے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ عید کے موقع پر ہتھیاروں کی مشق اور اسلحہ کے کھیل جائز ہیں، البتہ اس کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب ما يكره من حمل السلاح في العيد والحرم)’’عید کے دن اور حرم میں ہتھیار لے جانا مکروہ ہے۔‘‘ ان دونوں عنوانات میں بظاہر تعارض ہے۔ اسے یوں حل کیا گیا ہے کہ ہتھیاروں سے کھیلنے کی اجازت حالت امن کے ساتھ خاص ہے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی ممانعت بدامنی کے پیش نظر ہے۔ بعض شارحین نے بایں طور تطبیق دی ہے کہ کھیلنے کی اجازت مسجد سے باہر نماز عید سے فراغت کے بعد ہے، عید کے دن اظہار سرور کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے، البتہ عید کو جاتے وقت یا حرم میں اجتماع کے موقع پر ہتھیار لے کر چلنا منع ہے مبادا بے پروائی میں کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کی جہادی مشقیں دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ناجائز وہ نظر ہے جو غیر مردوں کے محاسن کی طرف ہو یا بطور لذت کے ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نظر المرأة إلی الحبش و نحوهم من غير ريبة)’’کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر عورت کا اہل حبشہ اور دوسرے لوگوں کو دیکھنا‘‘ واضح رہے کہ اس وقت پردے کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر سے چھپا رکھا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:454)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
936.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
950
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
950
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
950
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
(حضرت عائشہ ؓ سے ہی روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ) چونکہ وہ عید کا دن تھا، اس لیے حبشی ڈھالوں اور برچھیوں سے کھیل رہے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی یا آپ نے خود فرمایا: ’’کیا تم یہ کھیل دیکھنا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کیا، میرا رخسار آپ کے دوش پر تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے بنو ارفدہ! اپنا کام جاری رکھو۔‘‘ یہاں تک کہ جب میں اُکتا گئی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: ’’بس تجھے کافی ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’اب چلی جاؤ۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) یہ دراصل ایک ہی حدیث ہے۔ چونکہ اس میں دو قسم کے مضامین تھے، اس لیے اس حدیث کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ پہلی حدیث کے بعض طرق میں ہے کہ انصار کی بچیاں عید کے دن گیت گا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) ایک روایت میں ہے کہ حج کے موقع پر قیام منیٰ کے دوران میں ایسا ہوا اور وہ گانے کے ساتھ دف بھی بجا رہی تھیں۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:987) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! ہر قوم کا ایک تہوار ہوتا ہے جس میں وہ خوش ہوتے اور جشن مناتے ہیں اور ہماری عید آج کے دن ہے۔‘‘(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث:3931) (2) اس حدیث سے بعض روشن خیال حضرات نے گانے بجانے اور آلات موسیقی کے جائز ہونے پر استدلال کیا ہے۔ اس کے متعلق ہماری گزارشات یہ ہیں کہ گانے والی بچیاں پیشہ ور گلوکارائیں نہیں تھیں بلکہ وہ اپنے اسلاف کی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار پڑھ رہی تھیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی وضاحت ہے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث:952) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں گانے بجانے کے فن سے ناواقف تھیں جس طرح عام طور پر گانے بجانے کا کام کرنے والی لڑکیاں واقف ہوا کرتی ہیں۔ مغنیہ اسے کہتے ہیں جو خاص طور پر اپنے فن کے مطابق گائے، جس میں لے اور زیروبم ہوتا ہے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اس میں فواحش و منکرات کی تصریح یا تعریض ہوتی ہے، جبکہ مذکورہ واقعے میں ایسا نہیں تھا۔ اس حدیث کی روشنی میں مندرجہ ذیل شرائط ملحوظ رکھتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف بجایا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ اشعار بھی پڑھے جا سکتے ہیں۔ ٭ دف صرف ایک طرف سے بجائی جاتی ہے اور اس کے بجانے سے سادہ سی آواز پیدا ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ گھنگرو کی جھنکار نہیں ہوتی۔ ٭ دف بجاتے وقت دیگر آلات موسیقی استعمال نہ کیے جائیں، کیونکہ آلات موسیقی کی حرمت پر قرآن مجید کی واضح نصوص موجود ہیں۔ قرآن کریم نے انہیں "لهو الحدیث" کہہ کر ان سے نفرت کا اظہار کیا ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے قرب قیامت کی یہ علامت بتائی ہے کہ لوگ اسے جائز سمجھ کر استعمال کرنا شروع کر دیں گے۔ ٭ رزمیہ، یعنی شجاعت و بہادری پر مشتمل اشعار ہوں، بزمیہ اشعار، یعنی ہیجان انگیز اور عشقیہ غزلیں نہ گائی جائیں۔ ٭ جوان عورتیں اس میں حصہ نہ لیں بلکہ نابالغ بچیاں اس طرح خوشی کا اظہار کر سکتی ہیں۔ ٭ یہ اہتمام بھی ایسے حلقے میں ہونا چاہیے جہاں اپنے ہی عزیز و اقارب ہوں، اجنبی لوگوں کے سامنے ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٭ گیت اور اشعار خلاف شرع نہ ہوں کیونکہ اس قسم کے اشعار پڑھنا حرام اور ناجائز ہے۔ ٭ اس کے باوجود اگر فتنے کا اندیشہ ہو تو اس طرح کا مباح کام کرنا بھی ناجائز قرار پائے گا۔ مذکورہ شرائط کی پابندی کرتے ہوئے خوشی کے موقع پر دف کے ساتھ اشعار پڑھے جا سکتے ہیں۔ (3) اس حدیث پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بچیوں کے گاتے اور دف بجاتے وقت اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا تھا اور بعض روایات کے مطابق اسے کپڑے سے ڈھانپ لیا تھا، گویا چشم پوشی کے ساتھ اپنی ناپسندیدگی ظاہر فرما دی اور یہ بھی تاثر دیا کہ آپ اس گیت اور دف کی آواز سے کسی طرح بھی محظوظ نہیں ہو رہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایسے حالات میں گانا اور دف بجانا بھی اباحت مرجوح کے درجے میں تھا۔ واللہ أعلم۔ (4) امام بخاری ؒ نے حدیث کے دوسرے حصے سے عنوان کو ثابت کیا ہے کہ عید کے موقع پر ہتھیاروں کی مشق اور اسلحہ کے کھیل جائز ہیں، البتہ اس کے بعد ایک دوسرا عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب ما يكره من حمل السلاح في العيد والحرم)’’عید کے دن اور حرم میں ہتھیار لے جانا مکروہ ہے۔‘‘ ان دونوں عنوانات میں بظاہر تعارض ہے۔ اسے یوں حل کیا گیا ہے کہ ہتھیاروں سے کھیلنے کی اجازت حالت امن کے ساتھ خاص ہے اور ہتھیار ساتھ لے کر چلنے کی ممانعت بدامنی کے پیش نظر ہے۔ بعض شارحین نے بایں طور تطبیق دی ہے کہ کھیلنے کی اجازت مسجد سے باہر نماز عید سے فراغت کے بعد ہے، عید کے دن اظہار سرور کے پیش نظر ایسا کرنا جائز ہے، البتہ عید کو جاتے وقت یا حرم میں اجتماع کے موقع پر ہتھیار لے کر چلنا منع ہے مبادا بے پروائی میں کسی کو نقصان پہنچ جائے۔ (5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورتوں کا اجنبی مردوں کی جہادی مشقیں دیکھنا جائز ہے، کیونکہ ناجائز وہ نظر ہے جو غیر مردوں کے محاسن کی طرف ہو یا بطور لذت کے ہو، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: (باب نظر المرأة إلی الحبش و نحوهم من غير ريبة)’’کسی قسم کے شک و شبہ کے بغیر عورت کا اہل حبشہ اور دوسرے لوگوں کو دیکھنا‘‘ واضح رہے کہ اس وقت پردے کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنی چادر سے چھپا رکھا تھا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث:454)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ سے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب یا خود میں نے کہا یا نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی (ارفدہ) یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا : ’’بس!‘‘ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ۔
حدیث حاشیہ:
بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت نہیں۔ وأجاب ابن المنیر في الحاشیة بأن مراد البخاري رحمه اللہ الاستدلال علی أن العید ينتضر فیه من الانبساط مالا ینتضرفي غیرہ ولیس في الترجمة أیضاً تقیید بحال الخروج إلی العید بل الظاھر أن لعب الحبشة إن کان بعد رجوعه صلی اللہ علیه وسلم عن المصلی لأنه کان یخرج أول النھار۔(فتح الباري) یعنی ابن منیر نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کا استدلال اس امر کے لیے ہے کہ عید میں اس قدر مسرت ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتی اور ترجمہ میں حبشیوں کے کھیل کا ذکر عید سے قبل کے لیے نہیں ہے بلکہ ظاہر ہے کہ حبشیوں کا یہ کھیل عیدگاہ سے واپسی پر تھا کیونکہ آنحضرت ﷺ شروع دن ہی میں نماز عید کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It was the day of 'Id, and the Black people were playing with shields and spears; so either I requested the Prophet (ﷺ) or he asked me whether I would like to see the display. I replied in the affirmative. Then the Prophet (ﷺ) made me stand behind him and my cheek was touching his cheek and he was saying, "Carry on! O Bani Arfida," till I got tired. The Prophet (ﷺ) asked me, "Are you satisfied (Is that sufficient for you)?" I replied in the affirmative and he told me to leave.