باب: اس بارے میں کہ مسلمانوں کے لیے عید کے دن پہلی سنت کیا ہے
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The legal way of the celebrations on the two 'Eid festivals)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
952.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس وقت تشریف لائے جب انصار کی دو بچیاں وہ شعر گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر ایک دوسرے کے متعلق پڑھے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے وضاحت کی کہ وہ بچیاں معروف گلوکارائیں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہ شیطانی ساز، رسول اللہ ﷺ کے گھر میں موجود ہیں، باعث تعجب ہے۔ یہ واقعہ عید کے دن کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے (جس دن وہ خشیاں مناتے ہیں) یہ ہمارا عید کا دن ہے (اس لیے انہیں خوشیاں منانے دو)۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کی عید میں جائز قسم کے کھیل تماشے مباح ہیں لیکن اس سے پہلے نماز ادا کی جائے اور خود کو عبادت میں مصروف رکھا جائے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کا گانا وغیرہ اس وقت جائز ہے جب اس میں کوئی ہیجان انگیز اشعار نہ ہوں اور اجتماع مخلوط نہ ہو، نیز آلات محرمہ نہ ہوں اور نہ کسی عبادت ہی کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس کے متعلق ہم تفصیلی نوٹ قبل ازیں لکھ چکے ہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عید کے دن تمام مسلمانوں کے لیے سب کھیل تماشے، دل بہلانے کے طریقے، خوشی منانے کے انداز جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت اور گناہ کا اندیشہ نہ ہو۔ (2) اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے جائز تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطانی آوازیں کیوں قرار دیا؟ اور اگر ناجائز تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں کیوں برقرار رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اشعار، ممنوعہ گیتوں پر مشتمل نہ تھے بلکہ جنگی کارناموں پر مشتمل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں برقرار رکھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سدباب کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا کہ آئندہ لوگ اسے غیر مباح کاموں کے لیے بطور ذریعہ استعمال کریں گے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
938
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
952
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
952
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
952
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
باب میں مذکور لفظ سنت سے مراد مسنون طریقہ ہے، یعنی عیدین کے موقع پر کون کون سے کام مسنون ہیں، یا سنت سے مراد مطلق طریقہ ہے، یعنی عیدین کے موقع پر اہل اسلام کا طریق کار بیان کرنا مقصود ہے، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ سنت بمعنیٰ استنان ہے، یعنی طریقہ جاری ہونا۔ مطلب یہ ہے کہ اہل اسلام کے لیے عیدین کا کیا طریقہ جاری ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرے پاس حضرت ابوبکر صدیق ؓ اس وقت تشریف لائے جب انصار کی دو بچیاں وہ شعر گا رہی تھیں جو انصار نے جنگ بعاث کے موقع پر ایک دوسرے کے متعلق پڑھے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے وضاحت کی کہ وہ بچیاں معروف گلوکارائیں نہ تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ نے یہ دیکھ کر فرمایا: یہ شیطانی ساز، رسول اللہ ﷺ کے گھر میں موجود ہیں، باعث تعجب ہے۔ یہ واقعہ عید کے دن کا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! ہر قوم کے لیے عید ہوتی ہے (جس دن وہ خشیاں مناتے ہیں) یہ ہمارا عید کا دن ہے (اس لیے انہیں خوشیاں منانے دو)۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اہل اسلام کی عید میں جائز قسم کے کھیل تماشے مباح ہیں لیکن اس سے پہلے نماز ادا کی جائے اور خود کو عبادت میں مصروف رکھا جائے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ بچیوں کا گانا وغیرہ اس وقت جائز ہے جب اس میں کوئی ہیجان انگیز اشعار نہ ہوں اور اجتماع مخلوط نہ ہو، نیز آلات محرمہ نہ ہوں اور نہ کسی عبادت ہی کے فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ اس کے متعلق ہم تفصیلی نوٹ قبل ازیں لکھ چکے ہیں۔ بہرحال امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عید کے دن تمام مسلمانوں کے لیے سب کھیل تماشے، دل بہلانے کے طریقے، خوشی منانے کے انداز جائز ہیں بشرطیکہ ان میں کوئی شرعی قباحت اور گناہ کا اندیشہ نہ ہو۔ (2) اس مقام پر ایک اشکال ہے کہ اگر بچیوں کے اشعار پڑھنے جائز تھے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے شیطانی آوازیں کیوں قرار دیا؟ اور اگر ناجائز تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں کیوں برقرار رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ اشعار، ممنوعہ گیتوں پر مشتمل نہ تھے بلکہ جنگی کارناموں پر مشتمل تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انہیں برقرار رکھا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سدباب کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمایا کہ آئندہ لوگ اسے غیر مباح کاموں کے لیے بطور ذریعہ استعمال کریں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ (عروہ بن زبیر) نے، ان سے حضرت عائشہ ؓ نے، آپ نے بتلایا کہ حضرت ابو بکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
حدیث حاشیہ:
قال الخطابي یوم بعاث یو م مشھود من أیام العرب کانت فیه مقتلة عظیمة للأوس والخرزرج ولقیت الحربة قائمة مائة وعشرین سنة إلی الإسلام علی ما ذکر ابن إسحاق وغیرہ۔یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی۔ (فتح الباري) اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت ﷺ نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میںخرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان (تسہیل القاری، پ:4ص326/39) بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ ازراہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aisha (RA): Abu Bakr (RA) came to my house while two small Ansari girls were singing beside me the stories of the Ansar concerning the Day of Buath. And they were not singers. Abu Bakr (RA) said protestingly, "Musical instruments of Satan in the house of Allah's Apostle! (ﷺ) " It happened on the 'Id day and Allah's Apostle (ﷺ) said, "O Abu Bakr! There is an 'Id for every nation and this is our 'Id."