Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: The coming out of the ladies and menstruating women to the Masjid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
974.
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔
تشریح:
(1) حائضہ عورت کو نماز کی ممانعت ہے۔ اس اعتبار سے اس کے لیے مسجد میں جانا بھی ناجائز ہے، تو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی عورت کے لیے عیدگاہ میں جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ شوکت اسلام کا اظہار ہے، اس لیے ایسی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔ اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں عیدگاہ کا تقدس تو مجروح ہو گا۔ اس کا جواب ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی نے جب یہ اعتراض کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حائضہ عورت منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مقدس مقامات میں دوران حج جا سکتی ہے تو عیدگاہ جانے کے لیے اسے کیا ممانعت ہے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:324) (2) عیدگاہ میں اس قسم کی عورتوں کو الگ بیٹھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ نماز پڑھنے والی عورتوں کے درمیان بے ضابطگی نہ ہو۔ کچھ پڑھیں اور کچھ ویسے ہی بیٹھی رہیں اس سے نماز کا ظاہری حسن مجروح ہوتا ہے، اس لیے انہیں علیحدہ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں دوسری عورتوں اور مقدس جگہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ مقام نجاست سے آلودہ نہ ہو جائے جہاں نماز پڑھنی ہے یا ساتھ والی عورت کو کراہت نہ ہو۔ (عمدةالقاري:193/5)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
960
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
974
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
974
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
974
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
حضرت ام عطیہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہمیں ہمارے نبی ﷺ نے حکم دیا کہ ہم (نمازِ عید کے لیے) ان جوان عورتوں کو بھی نکالیں جو پردہ نشین ہیں۔ حضرت حفصہ بنت سیرین سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ نوجوان اور پردہ نشین عورتوں کو عید کے لیے نکالیں، البتہ حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) حائضہ عورت کو نماز کی ممانعت ہے۔ اس اعتبار سے اس کے لیے مسجد میں جانا بھی ناجائز ہے، تو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسی عورت کے لیے عیدگاہ میں جانا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ احادیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا ہے کہ اس میں متعدد فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدہ شوکت اسلام کا اظہار ہے، اس لیے ایسی عورتوں کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔ اس پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ ایسے حالات میں عیدگاہ کا تقدس تو مجروح ہو گا۔ اس کا جواب ایک دوسری روایت میں ہے کہ راوی نے جب یہ اعتراض کیا تو اسے جواب دیا گیا کہ حائضہ عورت منیٰ، عرفہ اور مزدلفہ وغیرہ مقدس مقامات میں دوران حج جا سکتی ہے تو عیدگاہ جانے کے لیے اسے کیا ممانعت ہے۔ (صحیح البخاري، الحیض، حدیث:324) (2) عیدگاہ میں اس قسم کی عورتوں کو الگ بیٹھنے کا حکم اس لیے دیا گیا ہے تاکہ نماز پڑھنے والی عورتوں کے درمیان بے ضابطگی نہ ہو۔ کچھ پڑھیں اور کچھ ویسے ہی بیٹھی رہیں اس سے نماز کا ظاہری حسن مجروح ہوتا ہے، اس لیے انہیں علیحدہ بیٹھنے کا حکم دیا گیا ہے، نیز اس میں دوسری عورتوں اور مقدس جگہ کا بھی خیال رکھا گیا ہے تاکہ وہ مقام نجاست سے آلودہ نہ ہو جائے جہاں نماز پڑھنی ہے یا ساتھ والی عورت کو کراہت نہ ہو۔ (عمدةالقاري:193/5)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبد اللہ بن عبد الوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ ؓا نے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لئے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ ؓ سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ ؓ کی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور (عیدگاہ جائیں) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت ﷺ اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔ یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔ بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔ جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔ عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔ حضرت علامہ شوکانی ؒ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے: وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ. یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے۔ پھر فرماتے ہیں: والقول بکراھیة الخروج علی الإطلاق رد للأحادیث الصحیحة بالآراء الفاسدۃ۔یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔ آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔ جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ و باادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری ؒ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں، یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: أَمَرَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى، الْعَوَاتِقَ، وَالْحُيَّضَ، وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلَاةَ، وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ، وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ، قَالَ: «لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»(صحیحین وغیرہ)آنحضرت ﷺ عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔ جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔ حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں۔ قال شیخنا في شرح الترمذي لا دلیل علی منع الخروج إلی العید للشواب مع الأمن من المفاسد مما حدثن في ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی۔یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Muhammad (RA): Um 'Atiyya said: "Our Prophet (ﷺ) ordered us to come out (on 'Id day) with the mature girls and the virgins staying in seclusion." Hafsah (RA) narrated the above mentioned Hadith and added, "The mature girls or virgins staying in seclusion but the menstruating women had to keep away from the Musalla."