باب: اگر کسی عورت کے پاس عید کے دن دوپٹہ (یا چادر) نہ ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
The Two Festivals (Eids)
(Chapter: If a women has no veil to use for Eid)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
980.
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’’اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔‘‘ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ ؓ تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض کیا: آپ نے اس مسئلے کے متعلق کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اور وہ جب بھی نبی ﷺ کا نام لیتیں تو یہ جملہ ضرور کہتیں کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پردہ نشین دوشیزائیں یا پردہ نشین اور نوجوان لڑکیاں عید کے لیے ضرور جائیں ۔۔ الفاظ کے متعلق (راوی حدیث) حضرت ایوب کو شک ہے ۔۔ بلکہ حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں، لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ تھلگ رہیں، بہرحال خواتین کو امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شریک ہونا چاہئے۔‘‘ حفصہ بنت سیرین کا بیان ہے کہ میں نے ان سے عرض کیا: حیض والی عورتیں بھی شریک ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، حیض والی بھی شریک ہوں، کیا یہ عورتیں میدانِ عرفات اور فلاں فلاں میں حاضر نہیں ہوتیں؟
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں سوالیہ انداز اختیار کیا ہے، جزم اور وثوق کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا۔ زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ جواب ذکر نہیں فرمایا۔ لیکن ہمارے نزدیک چونکہ جواب میں متعدد احتمالات تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت جواب کو حذف کر دیا ہے۔ یہ بھی احتمال تھا کہ وہ اپنی سہیلی کی چادروں میں سے کوئی چادر بطور ادھار لے لے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔ اور امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی سے عاریتاً کوئی چادر لے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی سہیلی اپنی چادر میں چھپا کر لے جائے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر کے ایک کنارے میں اسے چھپا کر لے جائے۔‘‘ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد بطور مبالغہ فرمایا ہو کہ انہیں بہر صورت عیدگاہ جانا چاہیے۔ اگرچہ ایک چادر، دو عورتیں لپیٹ کر ہی کیوں نہ جائیں۔ (فتح الباري:605/2) (2) عیدگاہ میں حائضہ عورتوں کی حاضری کو عجیب سمجھا جا رہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے وضاحت فرمائی کہ کیا عورتیں حج کے موقع پر میدان عرفات، مزدلفہ اور رمی جمرات کے لیے منیٰ میں حاضر نہیں ہوتیں؟ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اور نہ انہیں مسجد کے علاوہ دیگر مقدس مقامات ہی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ اگر وہ عیدگاہ میں جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں، وعظ و نصیحت سنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ انہیں صرف دخول مسجد اور نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ اور عیدگاہ مسجد نہیں ہے، نیز وہاں جانے پر ان پر نماز پڑھنا ضروری نہیں، لہذا شوکتِ اسلام کے اظہار کے لیے ان کی عید میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
966
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
980
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
980
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
980
تمہید کتاب
لفظی طور پر عید کی بنیاد لفظ عود ہے جس کے معنی رجوع کرنا اور لوٹنا ہیں۔ چونکہ ان دنوں میں اللہ تعالیٰ کی بے پایان عنایات پلٹ پلٹ کر مسلمانوں پر نازل ہوتی ہیں، اس لیے انہیں ہم "عیدین" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان میں مخصوص طریقے سے پڑھی جانے والی نماز کو صلاة العيدين اور وعظ و نصیحت کے طور پر دیے جانے والے خطبے کو خطبة العيدين کہا جاتا ہے۔عرب لوگوں کی اصطلاح میں ہر وہ اجتماع جو خوشی و مسرت کے اظہار کے لیے ہو عید کہلاتا ہے۔ ہم اسے تہوار یا جشن سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس عالم رنگ و بو میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے ہاں تہوار یا جشن کے دن مقرر نہ ہوں جن میں وہ اپنی اندرونی خوشی کے اظہار کے لیے حیثیت کے مطابق اچھا لباس پہنتے ہیں اور عمدہ کھانا استعمال کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے ہاں بھی اظہار مسرت کے لیے دو دن مقرر تھے۔ ان میں وہ اچھے کپڑے پہنتے اور کھیل تماشا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ ان دنوں کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دور جاہلیت سے یہ تہوار اس طرح مناتے چلے آ رہے ہیں، وہی انداز جاہلی رواج کے مطابق اب تک قائم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ان تہواروں کے بدلے ان سے بہتر دو دن مقرر کر دیے ہیں: ان میں سے ایک عید الفطر اور دوسرا عید الاضحیٰ کا دن ہے۔ (سنن ابی داود،الصلاۃ،حدیث:1134)اور اصل قوموں کے تہوار ان کے عقائد و افکار اور ان کی تاریخی روایات کے آئینہ دار ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے جو تہوار مقرر فرمائے ہیں وہ اس کے توحیدی مزاج، تاریخی روایات اور ان کے عقائد و نظریات کے ترجمان ہیں۔ الغرض ہم مسلمانوں کے لیے یہی دو دن قومی تہوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے علاوہ ہمارے ہاں جو تہوار رواج پا چکے ہیں ان کی کوئی مذہبی حیثیت نہیں ہے بلکہ بنظر غائر ان کا مطالعہ کیا جائے تو ان میں بے شمار خرافات اور غیر اسلامی رسوم در آئی ہیں۔ ہمارے ہاں دو تہواروں میں ایک عید الفطر ہے جو ماہ رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو منائی جاتی ہے کیونکہ ماہ مبارک کی تکمیل پر یہ دن ایمانی اور روحانی برکات کی وجہ سے اس قابل ہے کہ اسے امت مسلمہ کے لیے قومی تہوار کا درجہ دیا جائے جبکہ دوسرے تہوار عید الاضحیٰ کے لیے دس ذوالحجہ کا دن مقرر ہے کیونکہ اس دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے ادنیٰ اشارے پر اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اللہ کو راضی کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ کر انہوں نے اپنی سچی وفاداری کا ثبوت دیا تھا۔ ان خصوصیات کی وجہ سے انہیں یوم عید کہا جاتا ہے۔اسلامی طریقے کے مطابق ان دنوں میں خوشی منانے کا کیا انداز ہونا چاہیے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امت مسلمہ کی رہنمائی کے لیے تقریبا بیالیس (42) احادیث کا انتخاب کیا ہے، پھر موقع محل کی مناسبت سے ان پر تقریبا چھبیس (26) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن میں نماز عید، خطبۂ عید اور ان کے متعلقات سے ہمیں مطلع کیا ہے۔ اس دن خوشی کے اظہار کے لیے ہمارے کپڑوں کی نوعیت کیا ہو؟ کھیل اور تماشے کی حدود کیا ہیں؟ سب سے پہلے کیا کام کیا جائے؟ کھانے پینے سے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ عید گاہ کے لیے کس قسم کی جگہ کا انتخاب کیا جائے؟ وہاں جانے کا انداز اور طریقہ کیا ہو؟ وہاں پہنچ کر بطور شکر پہلے نماز ادا کی جائے یا لوگوں کی رہنمائی کے لیے خطبہ دیا جائے؟ صنف نازک، یعنی مستورات اس عظیم اسلامی تہوار میں کیونکر شرکت کریں؟ اس قسم کی خواتین کو وہاں جانا چاہیے؟ پھر خاص طور پر ان کی رشد و ہدایات کے لیے کیا طریق کار اختیار کیا جائے؟ اگر کوئی اس روحانی اجتماع میں شریک نہ ہو سکے تو اس کی تلافی کیسے ممکن ہے؟ فراغت کے بعد واپس آنے کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جائے؟ اور اس طرح دیگر بے شمار احکام و مسائل کو یکجا بیان فرمایا ہے۔واضح رہے کہ اس مقام پر صرف نماز عید اور خطبۂ عید سے متعلقہ ہدایات کا بیان ہے۔ صدقۂ فطر اور قربانی سے متعلق مکمل رہنمائی کے لیے امام بخاری نے آئندہ دو الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں جن میں ایک باب فرض صدقة الفطر اور دوسرا كتاب الأضاحي ہے جن میں بے شمار فقہی احکام زیر بحث آئیں گے۔ باذن اللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب العیدین میں 45 احادیث بیان کی ہیں جن میں چار معلق اور باقی متصل سند سے بیان کی ہیں۔ ان میں 26 مکرر اور 18 خالص ہیں۔ چھ (6) کے علاوہ امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ان مرفوع احادیث کے علاوہ صحابہ و تابعین سے مروی 23 آثار بھی بیان کیے ہیں۔ فقہی احکام کے علاوہ بے شمار فنی اور اسنادی مباحث کو بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے جن سے آپ کی وسعت علم اور دقت نظر کا اندازہ ہوتا ہے۔ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب العیدین کا مطالعہ کریں۔ اور اپنی عملی زندگی کو ان احادیث کی روشنی میں سنوارنے کی کوشش کریں۔ والله الموفق وهو يهدي من يشاء الی سواء السبيل
تمہید باب
اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو تو دوسری عورت سے عاریتاً، یعنی ادھار لے لے یا اس کی چادر کے ایک کنارے میں لپٹ کر عیدگاہ میں جائے تاکہ نماز یا دعا میں شرکت کر سکے۔
حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم اپنی جوان لڑکیوں کو عید کے دن باہر نکلنے سے منع کرتی تھیں، چنانچہ ایک عورت قصر بنی خلف میں آ کر مقیم ہوئی تو میں اس کے پاس پہنچی۔ اس نے بیان کیا کہ اس کا بہنوئی نبی ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا۔ اس کی بہن بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھی۔ ہمشیرہ نے بیان کیا کہ ہمارا کام مریضوں کی خبر گیری اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا تھا۔ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس بڑی چادر نہ ہو، ایسے حالات میں اگر وہ عید کے لیے باہر نہ جائے تو کوئی حرج ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’’اس کی سہیلی اپنی چادر میں سے کچھ حصہ اسے پہنا دے، تاہم انہیں چاہئے کہ وہ امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شمولیت کریں۔‘‘ حضرت حفصہ بنت سیرین نے کہا: جب حضرت ام عطیہ ؓ تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان سے عرض کیا: آپ نے اس مسئلے کے متعلق کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں، آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، اور وہ جب بھی نبی ﷺ کا نام لیتیں تو یہ جملہ ضرور کہتیں کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’پردہ نشین دوشیزائیں یا پردہ نشین اور نوجوان لڑکیاں عید کے لیے ضرور جائیں ۔۔ الفاظ کے متعلق (راوی حدیث) حضرت ایوب کو شک ہے ۔۔ بلکہ حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں، لیکن وہ نماز کی جگہ سے الگ تھلگ رہیں، بہرحال خواتین کو امور خیر اور اہل ایمان کی دعاؤں میں ضرور شریک ہونا چاہئے۔‘‘ حفصہ بنت سیرین کا بیان ہے کہ میں نے ان سے عرض کیا: حیض والی عورتیں بھی شریک ہوں؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، حیض والی بھی شریک ہوں، کیا یہ عورتیں میدانِ عرفات اور فلاں فلاں میں حاضر نہیں ہوتیں؟
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے عنوان میں سوالیہ انداز اختیار کیا ہے، جزم اور وثوق کے ساتھ اس کا جواب ذکر نہیں کیا۔ زین بن منیر کہتے ہیں کہ حدیث میں اس کی وضاحت تھی، اس لیے امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ جواب ذکر نہیں فرمایا۔ لیکن ہمارے نزدیک چونکہ جواب میں متعدد احتمالات تھے، اس لیے امام بخاری ؒ نے حسب عادت جواب کو حذف کر دیا ہے۔ یہ بھی احتمال تھا کہ وہ اپنی سہیلی کی چادروں میں سے کوئی چادر بطور ادھار لے لے جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں ہے۔ اور امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے کہ وہ اپنی سہیلی سے عاریتاً کوئی چادر لے۔ یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کی سہیلی اپنی چادر میں چھپا کر لے جائے جیسا کہ ابوداود کی روایت میں ہے: ’’اس کی سہیلی کو چاہیے کہ وہ اپنی چادر کے ایک کنارے میں اسے چھپا کر لے جائے۔‘‘ ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد بطور مبالغہ فرمایا ہو کہ انہیں بہر صورت عیدگاہ جانا چاہیے۔ اگرچہ ایک چادر، دو عورتیں لپیٹ کر ہی کیوں نہ جائیں۔ (فتح الباري:605/2) (2) عیدگاہ میں حائضہ عورتوں کی حاضری کو عجیب سمجھا جا رہا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ حضرت ام عطیہ ؓ نے وضاحت فرمائی کہ کیا عورتیں حج کے موقع پر میدان عرفات، مزدلفہ اور رمی جمرات کے لیے منیٰ میں حاضر نہیں ہوتیں؟ مطلب یہ ہے کہ عورتوں کو ذکر کرنے سے نہ روکا جائے اور نہ انہیں مسجد کے علاوہ دیگر مقدس مقامات ہی میں داخل ہونے سے روکا جائے۔ اگر وہ عیدگاہ میں جمع ہو کر اللہ کا ذکر کریں، وعظ و نصیحت سنیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ انہیں صرف دخول مسجد اور نماز پڑھنے کی ممانعت ہے۔ اور عیدگاہ مسجد نہیں ہے، نیز وہاں جانے پر ان پر نماز پڑھنا ضروری نہیں، لہذا شوکتِ اسلام کے اظہار کے لیے ان کی عید میں شمولیت پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے حفصہ بن سیرین کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عیدگاہ جانے سے منع کر تے تھے۔ پھر ایک خاتون باہر سے آئی اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا میں ان سے ملنے کے لیے حاضر ہوئی تو انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم ﷺ کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک رہے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ لڑائیوں میں شریک ہوئی تھیں، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی خدمت کیا کرتے تھے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتے تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے اگر کسی کے پاس چادر نہ ہو اور اس وجہ سے وہ عید کے دن (عیدگاہ) نہ جا سکے تو کوئی حرج ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اس کی سہیلی اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اوڑھا دے اور پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعامیں شریک ہوں۔ حفصہ نے بیان کیا کہ پھر جب ام عطیہ یہاں تشریف لائیں تو میں ان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئی اور دریافت کیا کہ آپ نے فلاں فلاں بات سنی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فداہوں۔ ام عطیہ جب بھی نبی کریم ﷺ کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور کہتیں کہ میرے باپ آپ پر فدا ہوں، ہاں توانہوں نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جوان پردہ والی یا جوان اور پردہ والی باہر نکلیں۔ شبہ ایوب کو تھا۔ البتہ حائضہ عورتیں عیدگاہ سے علیحدہ ہو کر بیٹھیں انہیں خیر اور مسلمانوں کی دعا میں ضرور شریک ہونا چاہیے۔ حفصہ نے کہا کہ میں نے ام عطیہ ؓ سے دریافت کیا کہ حائضہ عورتیں بھی؟ انہوں نے فرمایا کیا حائضہ عورتیں عرفات نہیں جاتیں اور کیا وہ فلاں فلاں جگہوں میں شریک نہیں ہوتیں۔ (پھر اجتماع عید ہی کی شرکت میں کون سی قباحت ہے)
حدیث حاشیہ:
حفصہ کے سوال کی وجہ یہ تھی کہ حائضہ پر نماز ہی فرض نہیں اور نہ وہ نماز پڑھ سکتی ہے تو عید گاہ میں اس کی شرکت سے کیا فائدہ ہوگا۔ اس پر حضرت ام عطیہ ؓ نے فرمایا کہ جب حیض والی عرفات اور دیگر مقامات مقدسہ میں جاسکتی ہیں اور جاتی ہیں تو عید گاہ میں کیوں نہ جائیں، اس جواب پر آج کل کے ان حضرات کو غور کرنا چاہیے جو عورتوں کو عید گاہ میں جانا ناجائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے سو حیلے بہانے تراشتے ہیں حالانکہ مسلمانوں کی عورتیں میلوں میں اور فسق وفجور میں دھڑلے سے شریک ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ حیض والی عورتوں کوبھی عید گاہ جانا چاہیے۔ وہ نماز سے الگ رہیں مگر دعاؤں میں شریک ہوں۔ اس سے مسلمانوں کی اجتماعی دعاؤں کی اہمیت بھی ثابت ہوتی ہے۔ بلا شک دعا مومن کا ہتھیار ہے اور جب مسلمان مرد وعورت مل کر دعا کریں تو نہ معلوم کس کی دعا قبول ہو کر جملہ اہل اسلام کے لیے باعث برکت ہو سکتی ہے۔ بحالات موجودہ جبکہ مسلمان ہر طرف سے مصائب کا شکار ہیں بالضرور دعاؤں کا سہارا ضروری ہے۔ امام عید کا فرض ہے کہ خشوع وخضوع کے ساتھ اسلام کی سر بلندی کے لیے دعا کرے، خاص طور پر قرآنی دعائیں زیادہ مؤثر ہیں پھر احادیث میں بھی بڑی پاکیزہ دعائیں وارد ہوئی ہیں۔ ان کے بعد سامعین کی مادری زبانوں میں بھی دعا کی جا سکتی ہے۔ ( وباللہ التوفیق )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiyub (RA): Hafsah bint Sirin said, "On Id we used to forbid our girls to go out for 'Id prayer. A lady came and stayed at the palace of Bani Khalaf and I went to her. She said, 'The husband of my sister took part in twelve holy battles along with the Prophet (ﷺ) and my sister was with her husband in six of them. My sister said that they used to nurse the sick and treat the wounded. Once she asked, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! If a woman has no veil, is there any harm if she does not come out (on 'Id day)?' The Prophet (ﷺ) said, 'Her companion should let her share her veil with her, and the women should participate in the good deeds and in the religious gatherings of the believers.' " Hafsah (RA) added, "When Um-'Atiya came, I went to her and asked her, 'Did you hear anything about so-and-so?' Um-'Atlya said, 'yes, let my father be sacrificed for the Prophet (ﷺ) . (And whenever she mentioned the name of the Prophet (ﷺ) she always used to say, 'Let my father be' sacrificed for him). He said, 'Virgin mature girls staying often screened (or said, 'Mature girls and virgins staying often screened--Aiyub is not sure as which was right) and menstruating women should come out (on the 'Id day). But the menstruating women should keep away from the Musalla. And all the women should participate in the good deeds and in the religious gatherings of the believers'." Hafsah (RA) said, "On that I said to Um-'Atiya, 'Also those who are menstruating?' “Um-'Atiya replied, "Yes. Do they not present themselves at 'Arafat and elsewhere?".