Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: What is said regarding the Witr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
991.
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نماز وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے حتی کہ اپنی بعض ضروریات کو پورا کرنے کا حکم فرماتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث کو کتاب الوتر میں لائے ہیں، حالانکہ اس کا تعلق صلاۃ اللیل سے ہے جس کے لیے امام بخاری نے ایک الگ عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ سائل نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی نماز شب کو وتر بنانے کا طریقہ پوچھا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے کتاب الوتر کا آغاز اس حدیث سے کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں رات کی نماز کو وتر کیسے بناؤں؟ آپ نے فرمایا کہ رات کو نماز پڑھنے والا دو دو رکعت ادا کرے اور جب محسوس کرے کہ صبح طلوع ہونے کو ہے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ اس کی پہلی نماز کو وتر بنا دے گی۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1748 (749)) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سائل نے کیفیت ادا کے متعلق سوال کیا تھا کہ صلاۃ اللیل کو اکٹھا ادا کرنا ہے یا الگ الگ، تو آپ نے فرمایا: ’’صلاۃ اللیل کو دو دو کر کے پڑھا جائے۔‘‘ راوئ حدیث حضرت ابن عمر ؓ سے جب اس کا مفہوم دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے۔ اس طرح صلاۃ اللیل کو ادا کیا جائے، پھر آخر میں وتر پڑھا جائے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1783 (749)) دن کے نوافل میں بھی یہی طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات کی نماز دو دو کر کے پڑھی جائے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1295) رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی دن کی نماز کے متعلق اسی طرح ہے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ام ہانی ؓ کے گھر آپ نے چاشت کی آٹھ رکعات پڑھی تھیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا تھا۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1290) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی آخری ایک رکعت کو الگ پڑھا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے، پھر آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1718 (736)) اس طرح نماز شب ادا کرنا افضل ہے، البتہ یہ بھی جائز ہے کہ آخری رکعت وتر الگ پڑھنے کے بجائے انہیں وصل سے پڑھا جائے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے، ان میں پانچ وتر ہوتے، ان میں تشہد کے لیے صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1720 (737)) تین وتر بھی ایک سلام سے پڑھنے ثابت ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین وتروں میں تین سورتیں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾)، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾) اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾) پڑھتے اور صرف آخری میں سلام پھیرتے تھے۔ (سنن النسائي، قیام الیل، حدیث:1702) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز وصل سے بھی پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:620/2) (2) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایک وتر پڑھنے کے لیے شرط ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز پڑھی گئی ہو، صرف ایک رکعت پر اکتفا صحیح نہیں۔ لیکن یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وتر برحق ہیں، اس لیے جو چاہے پانچ پڑھ لے یا تین پڑھ لے یا ایک وتر ہی پڑھ لے۔‘‘(سنن أبي داود، الوتر، حدیث:1422) حضرت معاویہ ؓ نے بھی ایک رکعت نماز وتر ادا کی تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ان کی تصویب فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3764) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ نماز عشاء کے بعد صرف ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد:432/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحت وتر کے لیے ضروری نہیں کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز ادا کی گئی ہو، البتہ بہتر ہے کہ ایک رکعت وتر سے پہلے کچھ رکعات پڑھی جائیں تاکہ اس ایک رکعت سے پہلی ادا شدہ نماز کو وتر بنا لیا جائے۔ (فتح الباري:620/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
977
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
991
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
991
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
991
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نماز وتر میں ایک اور دو رکعت کے درمیان سلام پھیرتے تھے حتی کہ اپنی بعض ضروریات کو پورا کرنے کا حکم فرماتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ اس حدیث کو کتاب الوتر میں لائے ہیں، حالانکہ اس کا تعلق صلاۃ اللیل سے ہے جس کے لیے امام بخاری نے ایک الگ عنوان قائم کیا ہے۔ چونکہ اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ سائل نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی نماز شب کو وتر بنانے کا طریقہ پوچھا تھا، اس لیے امام بخاری ؒ نے کتاب الوتر کا آغاز اس حدیث سے کیا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا کہ میں رات کی نماز کو وتر کیسے بناؤں؟ آپ نے فرمایا کہ رات کو نماز پڑھنے والا دو دو رکعت ادا کرے اور جب محسوس کرے کہ صبح طلوع ہونے کو ہے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ اس کی پہلی نماز کو وتر بنا دے گی۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1748 (749)) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ سائل نے کیفیت ادا کے متعلق سوال کیا تھا کہ صلاۃ اللیل کو اکٹھا ادا کرنا ہے یا الگ الگ، تو آپ نے فرمایا: ’’صلاۃ اللیل کو دو دو کر کے پڑھا جائے۔‘‘ راوئ حدیث حضرت ابن عمر ؓ سے جب اس کا مفہوم دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہر دو رکعت پر سلام پھیر دیا جائے۔ اس طرح صلاۃ اللیل کو ادا کیا جائے، پھر آخر میں وتر پڑھا جائے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1783 (749)) دن کے نوافل میں بھی یہی طریقہ ہونا چاہیے جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ دن اور رات کی نماز دو دو کر کے پڑھی جائے۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1295) رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی دن کی نماز کے متعلق اسی طرح ہے جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت ام ہانی ؓ کے گھر آپ نے چاشت کی آٹھ رکعات پڑھی تھیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرا تھا۔ (سنن أبي داود، التطوع، حدیث:1290) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ وتر کی آخری ایک رکعت کو الگ پڑھا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے۔ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے، پھر آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1718 (736)) اس طرح نماز شب ادا کرنا افضل ہے، البتہ یہ بھی جائز ہے کہ آخری رکعت وتر الگ پڑھنے کے بجائے انہیں وصل سے پڑھا جائے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کو تیرہ رکعت پڑھتے، ان میں پانچ وتر ہوتے، ان میں تشہد کے لیے صرف آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث:1720 (737)) تین وتر بھی ایک سلام سے پڑھنے ثابت ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ تین وتروں میں تین سورتیں ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾)، ﴿قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾) اور ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾) پڑھتے اور صرف آخری میں سلام پھیرتے تھے۔ (سنن النسائي، قیام الیل، حدیث:1702) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ وتر کی نماز وصل سے بھی پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:620/2) (2) اس حدیث کے پیش نظر بعض حضرات کا موقف ہے کہ ایک وتر پڑھنے کے لیے شرط ہے کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز پڑھی گئی ہو، صرف ایک رکعت پر اکتفا صحیح نہیں۔ لیکن یہ موقف صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وتر برحق ہیں، اس لیے جو چاہے پانچ پڑھ لے یا تین پڑھ لے یا ایک وتر ہی پڑھ لے۔‘‘(سنن أبي داود، الوتر، حدیث:1422) حضرت معاویہ ؓ نے بھی ایک رکعت نماز وتر ادا کی تھی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے ان کی تصویب فرمائی تھی۔ (صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث:3764) حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کے متعلق حدیث میں ہے کہ وہ نماز عشاء کے بعد صرف ایک رکعت وتر پڑھتے تھے، اس کے علاوہ کچھ نہیں ادا کرتے تھے۔ (مسندأحمد:432/5) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ صحت وتر کے لیے ضروری نہیں کہ اس سے پہلے کچھ نہ کچھ نماز ادا کی گئی ہو، البتہ بہتر ہے کہ ایک رکعت وتر سے پہلے کچھ رکعات پڑھی جائیں تاکہ اس ایک رکعت سے پہلی ادا شدہ نماز کو وتر بنا لیا جائے۔ (فتح الباري:620/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اور اسی سند کے ساتھ نافع سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمر ؓ وتر کی جب تین رکعتیں پڑھتے تو دو رکعت پڑھ کر سلام پھیرتے یہاں تک کہ ضرورت سے بات بھی کرتے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے دو باتیں نکلیں ایک یہ کہ رات کی نماز دو رکعت کر کے پڑھنا چاہیے، یعنی ہر دوگانہ کے بعد سلا م پھیرے، دوسرے وتر کی ایک رکعت بھی پڑھ سکتا ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے اور ان کی دلیل ضعیف ہے۔ صحیح حدیثوں سے وتر کی ایک رکعت پڑھنا ثابت ہے اور تفصیل امام محمد بن نصر مرحوم کی کتاب الوتر والنوافل میں ہے۔ (مولانا وحید الزماں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Nafi' told that 'Abdullah bin 'Umar used to say Taslim between (the first) two Rakat and (the third) odd one in the Witr prayer, when he wanted to attend to a certain matter (during that interval between the Rakat).