Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: What is said regarding the Witr prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
994.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی نماز شب یہی ہوتی تھی۔ ان رکعات میں آپ کا سجدہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ آپ کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی بھی پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ نماز فجر سے پہلے آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ رہتے تاآنکہ مؤذن نماز کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔
تشریح:
اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے۔ اس کے بعد نماز فجر سے قبل ہلکی پھلکی دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1718 (736)) حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں پانچ وتر ہوتے تھے جن میں ایک سلام ہوتا اور آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1720 (737)) ان روایات میں تضاد نہیں بلکہ اس آخری روایت میں صبح کی دو سنتوں کو شامل کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعت سمیت تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1722 (737)) اس روایت کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ آخر میں تین رکعت وتر فصل سے پڑھتے تھے۔ احناف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ تین رکعت وتر وصل، یعنی ایک سلام سے پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مذکورہ حدیث عائشہ سے ان کے اختیار کردہ موقف کی تردید ہوتی ہے۔ (فتح الباري:626/2) نیز احناف کا وتر کی نماز میں دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
980
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
994
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
994
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
994
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ (رات کو) گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔ آپ کی نماز شب یہی ہوتی تھی۔ ان رکعات میں آپ کا سجدہ اتنا طویل ہوتا تھا کہ آپ کے سر اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی بھی پچاس آیات پڑھ سکتا تھا۔ نماز فجر سے پہلے آپ دو رکعتیں پڑھتے تھے، پھر اپنے دائیں پہلو پر لیٹ رہتے تاآنکہ مؤذن نماز کی اطلاع دینے کے لیے آپ کے پاس آتا۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عشاء سے فراغت کے بعد فجر تک گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے۔ اس کے بعد نماز فجر سے قبل ہلکی پھلکی دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1718 (736)) حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت تیرہ رکعت پڑھتے تھے، ان میں پانچ وتر ہوتے تھے جن میں ایک سلام ہوتا اور آخری رکعت میں بیٹھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1720 (737)) ان روایات میں تضاد نہیں بلکہ اس آخری روایت میں صبح کی دو سنتوں کو شامل کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی دو رکعت سمیت تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1722 (737)) اس روایت کے بعض طرق میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز شب میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک رکعت وتر ادا کرتے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ آخر میں تین رکعت وتر فصل سے پڑھتے تھے۔ احناف کا موقف اس کے خلاف ہے۔ وہ تین رکعت وتر وصل، یعنی ایک سلام سے پڑھنے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ مذکورہ حدیث عائشہ سے ان کے اختیار کردہ موقف کی تردید ہوتی ہے۔ (فتح الباري:626/2) نیز احناف کا وتر کی نماز میں دو رکعت کے بعد تشہد کے لیے بیٹھنا کسی بھی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سےابوالیمان نےبیان کیا انہوں نےکہاکہ ہمیں شعیب نےزہری سےخبردی انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیربیان کیا کہ حضرت عائشہ رضي الله عنہا نےانہیں خبردی کہ رسولﷺ گیارہ رکعتیں(وتراور تہجدکی) پڑھتےتھے، آپﷺ کی یہی نماز تھی مراد ان کی رات کی نماز تھی۔ آٗپ کاسجدہ ان رکعتوں میں اتنا لمبا ہوتا تھا کہ سر اٹھانے پہلے تم میں سے کوئی شخص بھی پچاس آیتیں پڑھ سکتا اور فجر کی نماز فرض سے پہلے آپ سنت دو رکعتیں پڑھتے تھے اس کےبعد (ذرا دیر) داہنے پہلو پر لیٹ رہتے یہاں تک مؤذن بلانےکےلئےآپ کے پاس آتا۔
حدیث حاشیہ:
پس گیارہ رکعتیں انتہا ہیں۔ وتر کی دوسری حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ اب ابن عباس کی حدیث میں جو تیرہ رکعتیں مذکورہ ہیں تو اس کی رو سے بعضوں نے انتہا وتر کی تیرہ رکعت قرار دی ہیں۔ بعضوں نے کہا ان میں دو رکعتیں عشاء کی سنت تھیں تو وتر کی وہی گیارہ رکعتیں ہوئیں۔ غرض وتر کی ایک رکعت سے لے کر تین پانچ نو گیارہ رکعتوں تک منقول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان گیارہ رکعتوں میں آٹھ تہجد کی تھیں اور تین وتر کی اور صحیح یہ ہے کہ تراویح تہجد وتر صلوۃ اللیل سب ایک ہی ہیں (وحید الزمان ؒ )
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) used to pray eleven Rakat at night and that was his night prayer and each of his prostrations lasted for a period enough for one of you to recite fifty verses before Allah's Apostle (ﷺ) raised his head. He also used to pray two Rakat (Sunna) before the (compulsory) Fajr prayer and then lie down on his right side till the Muadh-dhin came to him for the prayer.