Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: The timing of the Salat-ul-Witr (Witr prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
´اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ` مجھے رسول اللہﷺنے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
995.
حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔
تشریح:
(1) اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں اوقات وتر کو بیان کیا گیا ہے۔ وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1168) ہاں! جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوئے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو نبی ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کیونکہ وہ رات گئے تک تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ آخر رات میں بیدار ہو سکتا ہے تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ یہ افضل ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر نیند کرے اور جسے اعتماد ہو کہ رات کے قیام کے لیے بیدار ہو سکے گا تو رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے اور یہ افضل ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1765 (755)) (2) حدیث ابن عمر ؓ میں ہے کہ وتر رات کے کسی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اسے صبح کی سنتوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ مزید وضاحت آئندہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
981
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
995
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
995
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
995
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
تمہید باب
اس معلق روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری،التھجد،حدیث:1178)
´اور ابوہریرہ ؓ نے کہا کہ` مجھے رسول اللہﷺنے یہ وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کرو۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن سیرین سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابن عمر ؓ سے دریافت کیا کہ نماز صبح سے قبل دو رکعت کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے کیا ہم ان میں لمبی قراءت کر سکتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ نبی ﷺ نماز شب دو دو رکعت پڑھتے، پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر اسے طاق بنا لیتے۔ صبح کی نماز سے پہلے دو رکعت تو اس طرح ادا کرتے گویا اذان، یعنی اقامت کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عنوان اور پیش کردہ حدیث میں اوقات وتر کو بیان کیا گیا ہے۔ وتر کا وقت عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے جیسا کہ حضرت خارجہ بن حذافہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وتر کا وقت نماز عشاء کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔‘‘(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث:1168) ہاں! جسے اندیشہ ہو کہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا اسے چاہیے کہ نماز عشاء کے بعد وتر پڑھ کر سوئے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ ؓ کو نبی ﷺ نے وصیت فرمائی تھی کیونکہ وہ رات گئے تک تعلیم و تعلم میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن اگر کسی کو یقین ہو کہ وہ آخر رات میں بیدار ہو سکتا ہے تو وہ رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے کیونکہ یہ افضل ہے، چنانچہ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے جسے اندیشہ ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو وہ وتر پڑھ کر نیند کرے اور جسے اعتماد ہو کہ رات کے قیام کے لیے بیدار ہو سکے گا تو رات کے آخری حصے میں وتر پڑھے اور یہ افضل ہے۔‘‘(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث:1765 (755)) (2) حدیث ابن عمر ؓ میں ہے کہ وتر رات کے کسی حصے میں پڑھا جا سکتا ہے، البتہ اسے صبح کی سنتوں سے پہلے پڑھنا چاہیے۔ مزید وضاحت آئندہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے وصیت فرمائی کہ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کروں۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابو نعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا کہ نماز صبح سے پہلے کی دو رکعتوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا میں ان میں لمبی قرات کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ تو رات کی نماز (تہجد) دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے پھر ایک رکعت پڑھ کر ان کوطاق بنا لیتے اور صبح کی نماز سے پہلے کی دو رکعتیں (سنت فجر تو) اس طرح پڑھتے گویا اذان (اقامت) کی آواز آپ کے کان میں پڑ رہی ہے۔ حماد کی اس سے مراد یہ ہے کہ آپ جلدی پڑھ لیتے۔
حدیث حاشیہ:
اس سلسلے کی احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عشاءکے بعد ساری رات وتر کے لیے ہے۔ طلوع صبح صادق سے پہلے جس وقت بھی چاہے پڑھ سکتا ہے۔ حضوراکرم ﷺ کا معمول آخر شب میں صلوۃ اللیل کے بعد اسے پڑھنے کا تھا۔ ابوبکر ؒ کو آخر شب میں اٹھنے کا پوری طرح یقین نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ عشاء کے بعد ہی پڑھ لیتے تھے اور عمر ؓ کا معمول آخرشب میں پڑھنے کا تھا۔ اس حدیث کے ذیل میں علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الْإِيتَارِ بِرَكْعَةٍ وَاحِدَةٍ عِنْدَ مَخَافَةِ هُجُومِ الصُّبْحِ، وَسَيَأْتِي مَا يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ ذَلِكَ مِنْ غَيْرِ تَقْيِيدٍ، وَقَدْ ذَهَبَ إلَى ذَلِكَ الْجُمْهُورُ. قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَمِمَّنْ كَانَ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ الْخُلَفَاءُ الْأَرْبَعَةُ الخ۔یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر مشروع ثابت ہوا جب صبح کی پوپھٹنے کا ڈر ہو اور عنقریب دوسرے دلائل آرہے ہیں جن سے اس قید کے بغیر ہی ایک رکعت وتر کی مشروعیت ثابت ہے اور ایک رکعت وتر پڑھنا خلفاءاربعہ ( حضرت ابو بکرصدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی المرتضی رضی اللہ عنہم ) اور سعد بن ابی وقاص بیس صحابہ کرام سے ثابت ہے۔ یہاں علامہ شوکانی نے سب کے نام تحریر فرمائے ہیں اور تقریبا بیس ہی تابعین وتبع تابعین وائمہ دین کے نام بھی تحریر فرمائے ہیں جو ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حنفیہ کے دلائل! علامہ نے حنفیہ کے ان دلائل کا جواب دیا ہے جو ایک رکعت وتر کے قائل نہیں جن کی پہلی دلیل حدیث یہ ہے: عن محمد بن کعب أن النبي صلی اللہ علیه وسلم نھی عن البتیراء۔یعنى رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم نے بتیراءنماز سے منع فرمایا۔ لفظ (بتیراء) دم کٹی نماز کو کہتے ہیں۔ عراقی نے کہا یہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے۔ علامہ ابن حزم نے کہا کہ حضرت ﷺ سے نماز بتیراءکی نہی ثابت نہیں اور کہا کہ محمد بن کعب کی حدیث باوجودیکہ استدلال کے قابل نہیں، مگر اس میں بھی بتیراءکا بیان نہیں ہے، بلکہ ہم نے عبد الرزاق سے، انہوں نے سفیان بن عیینہ سے، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ بتیراء تین رکعت وتر بھی بتیراء (یعنی دم کٹی) نماز ہے۔ فعاد البتیراءعلی المحتج بالخبر الکاذب فیھا۔ حنفیہ کی دوسری دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا یہ قول ہے: إنه قال ما أجزأت رکعة قط۔یعنی ایک رکعت نماز کبھی بھی کافی نہیں ہوتی۔ امام نووی شرح مہذب میں فرماتے ہیں کہ یہ اثر عبداللہ بن مسعود سے ثابت نہیں ہے اگر اس کو درست بھی مانا جائے تو اس کا تعلق حضرت ابن عباس ؓ کے اس قول کی تر دید کرناتھا۔ آپ نے فرمایا تھا کہ حالت خوف میں چار فرض نماز میں ایک ہی رکعت کافی ہے۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ایک رکعت کافی نہیں ہے! الغرض ابن عباس کے اس قول سے استدلال درست نہیں اور اس کا تعلق صلوۃ خوف کی ایک رکعت سے ہے۔ ابن ابی شیبہ میں ہے ایک مرتبہ ولید بن عقبہ امیر مکہ کے ہاں حضرت حذیفہ ؓ اور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے۔ جب وہاں سے وہ نکلے تو انہوں نے نماز (وتر) ایک ایک رکعت ادا کی (نیل الأوطار) بڑی مشکل! یہاں بخاری شریف میں جن جن روایات میں ایک رکعت وتر کا ذکر آیا ہے ایک رکعت وتر کے ساتھ ان کا ترجمہ کرنے میں ان حنفی حضرات کو جو آج کل بخاری شریف کے ترجمے شائع فرما رہے ہیں، بڑی مشکل پیش آئی ہے اور انہوں نے پوری کوشش کی ہے کہ ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ایک رکعت وتر پڑھنے کا لفظ ہی نہ آنے پائے بایں طور کہ اس سے ایک رکعت وتر کا ثبوت ہو سکے اس کوشش کے لیے ان کی محنت قابل داد ہے اور اہل علم کے مطالعہ کے قابل، مگر ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ تصنع وتکلف وعبارت آرائی سے حقیقت پر پردہ ڈالنا کوئی دانشمندی نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Sirin (RA): I asked Ibn 'Umar (RA), "What is your opinion about the two Rakat before the Fajr (compulsory) prayer, as to prolonging the recitation in them?" He said, "The Prophet (ﷺ) used to pray at night two Rakat followed by two and so on, and end the prayer by one Raka Witr. He used to offer two Rakat before the Fajr prayer immediately after the Adhan." (Hammad, the sub-narrator said, "That meant (that he prayed) quickly.)"