Sahi-Bukhari:
Witr Prayer
(Chapter: To offer the Witr Salat while riding on an animal)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
999.
حضرت سعید بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں طریق مکہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ سعید کہتے ہیں: جب مجھے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر ادا کیے، پھر ان سے جا ملا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: مجھے صبح کا خدشہ لاحق ہوا تو اتر کر وتر ادا کرنے لگا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں اچھا نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں! تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہو کر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق سے فیصلہ نہیں کیا کہ وتر واجب ہے یا نہیں، البتہ وتر کو كتاب التهجد اور كتاب التطوع سے الگ بیان کیا ہے۔ یہ اسلوب تقاضا کرتا ہے کہ اس کی حیثیت تہجد اور تطوع سے جداگانہ ہے۔ اگر سواری پر وتر پڑھنے کی حدیث کو پیش نہ کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کا رجحان وجوب وتر کی طرف ہے لیکن انہوں نے مذکورہ عنوان اور اس کے متعلق حدیث پیش کر کے اس احتمال کو ختم کر دیا ہے۔ (فتح الباري:616/2) (2) سابقہ احادیث میں بیان ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر کے لیے اپنے اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے، نیز آپ نے نماز شب کے آخر میں وتر پڑھنے کا امر صادر فرمایا ہے۔ ان احادیث سے بعض حضرات نے وجوب وتر کا استنباط کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث ابن عمر سے عدم وجوب کو ثابت کیا ہے اور اس پر دو الگ الگ عنوان قائم کر کے بتایا ہے کہ وتر واجب نہیں، البتہ عام نوافل کی حیثیت سے بالاتر ہیں کیونکہ سفر میں ان کے ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ سواری پر ادا کیے ہیں، اس لیے واجب نہیں کیونکہ فرائض کو سواری پر ادا کرنا ثابت نہیں۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ سواری پر وتر ادا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر نہیں تھا جیسا کہ قائلین وجوب کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:626/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
985
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
999
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
999
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
999
تمہید کتاب
عشاء اور فجر کے درمیان بہت سا وقت خالی ہے جس میں کوئی نماز فرض نہیں، حالانکہ یہ وقت اس لحاظ سے بہت قیمتی ہے کہ اس میں فضا بہت پرسکون ہوتی ہے۔ جس قدر یکسوئی اور دل جمعی اس وقت ہوتی ہے دوسرے اوقات میں نہیں ہوتی۔ یہ وقت نماز وتر کے لیے بہت موزوں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کو سرخ اونٹوں سے بہتر قرار دیا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء کے بعد سے صبح صادق تک مقرر کیا ہے، یعنی اسے اس دوران میں کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس نماز کے آداب و احکام بیان کرنے کے لیے ایک مرکزی عنوان قائم کیا ہے جس میں پندرہ (15) احادیث بیان کی ہیں اور ان پر سات (7) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ تمام محدثین نے نماز تہجد اور نماز وتر کے متعلق الگ الگ عنوان قائم کیے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ چونکہ ان دونوں میں ایک قسم کا رابطہ اور تعلق بھی ہے، اس لیے نماز تہجد کے ابواب میں وتر اور ابواب وتر میں تہجد کا ذکر ہوتا ہے۔ نماز وتر، نماز تہجد کا ایک حصہ ہے جو اس سے صورت، قراءت اور قنوت وغیرہ کے اعتبار سے الگ اور مستقل حیثیت رکھتی ہے۔ نماز وتر کے متعلق کئی ایک مسائل ذکر ہوں گے، مثلاً: نماز وتر واجب ہے یا سنت؟ اس کی رکعات کتنی ہیں؟ نیت شرط ہے یا نہیں؟ اس میں مخصوص سورتوں کی قراءت ہوتی ہے؟ اس کا آخری وقت کیا ہے؟ کیا اسے دوران سفر میں سواری پر پڑھا جا سکتا ہے؟ اگر نماز وتر رہ جائے تو اسے بطور قضا پڑھا جا سکتا ہے؟ اس میں قنوت کی حیثیت کیا ہے؟ محل قنوت کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ اس میں کون سی دعا مشروع ہے؟ اسے وصل یا فصل سے پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟ وتر کے بعد دو رکعت پڑھنی ثابت ہیں یا نہیں؟ پھر اسے بیٹھ کر پڑھنا چاہیے یا کھڑے ہو کر، اس کے متعلق طریقۂ نبوی کیا ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اور ان کے علاوہ دیگر بیسیوں احکام بیان کیے ہیں جنہیں ہم ذکر کریں گے۔ ان شاءاللہامام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الوتر میں 15 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں ایک معلق اور باقی موصول ہیں، پھر آٹھ مکرر ہیں اور سات خالص۔ ان سب احادیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی تین آثار بھی متصل اسانید سے بیان کیے ہیں۔ نماز وتر کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی ادائیگی کے لیے اپنے اہل خانہ کو پچھلی رات بیدار کیا کرتے تھے، جو سو کر آخر شب بیدار نہیں ہو سکتا تھا اسے اول رات ادا کرنے کا حکم فرماتے تھے اور اگر رہ جاتے تو اس کی قضا کا حکم دیتے تھے۔ الغرض نماز وتر بہت اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کی اہمیت و فضیلت کو خوب خوب اجاگر کیا ہے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری پیش کردہ تمہیدی گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب الوتر کا مطالعہ کریں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی قوت استدلال اور طریقۂ استنباط سے آگاہی ہو۔ (والله الموفق وهو الهادي إلي سواء السبيل)
حضرت سعید بن یسار سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں طریق مکہ میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے ہمراہ سفر کر رہا تھا۔ سعید کہتے ہیں: جب مجھے صبح ہونے کا خدشہ لاحق ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر ادا کیے، پھر ان سے جا ملا۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: کہاں گئے تھے؟ میں نے عرض کیا: مجھے صبح کا خدشہ لاحق ہوا تو اتر کر وتر ادا کرنے لگا تھا۔ اس پر انہوں نے فرمایا: کیا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی میں اچھا نمونہ نہیں ہے؟ میں نے کہا: اللہ کی قسم! کیوں نہیں! تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ اونٹ پر سوار ہو کر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے جزم و وثوق سے فیصلہ نہیں کیا کہ وتر واجب ہے یا نہیں، البتہ وتر کو كتاب التهجد اور كتاب التطوع سے الگ بیان کیا ہے۔ یہ اسلوب تقاضا کرتا ہے کہ اس کی حیثیت تہجد اور تطوع سے جداگانہ ہے۔ اگر سواری پر وتر پڑھنے کی حدیث کو پیش نہ کرتے تو کہا جا سکتا تھا کہ ان کا رجحان وجوب وتر کی طرف ہے لیکن انہوں نے مذکورہ عنوان اور اس کے متعلق حدیث پیش کر کے اس احتمال کو ختم کر دیا ہے۔ (فتح الباري:616/2) (2) سابقہ احادیث میں بیان ہوا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نماز وتر کے لیے اپنے اہل خانہ کو بیدار کرتے تھے، نیز آپ نے نماز شب کے آخر میں وتر پڑھنے کا امر صادر فرمایا ہے۔ ان احادیث سے بعض حضرات نے وجوب وتر کا استنباط کیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے مذکورہ حدیث ابن عمر سے عدم وجوب کو ثابت کیا ہے اور اس پر دو الگ الگ عنوان قائم کر کے بتایا ہے کہ وتر واجب نہیں، البتہ عام نوافل کی حیثیت سے بالاتر ہیں کیونکہ سفر میں ان کے ادا کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ لیکن چونکہ سواری پر ادا کیے ہیں، اس لیے واجب نہیں کیونکہ فرائض کو سواری پر ادا کرنا ثابت نہیں۔ اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ سواری پر وتر ادا کرنا کسی مجبوری کی بنا پر نہیں تھا جیسا کہ قائلین وجوب کی طرف سے تاثر دیا جاتا ہے۔ (فتح الباري:626/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ابوبکر بن عمر بن عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب سے بیان کیا اور ان کو سعید بن یسار نے بتلایا کہ میں عبد اللہ بن عمر ؓ کے ساتھ مکہ کے راستے میں تھا۔ سعید نے کہا کہ جب راستے میں مجھے طلوع فجر کا خطرہ ہوا تو سواری سے اتر کر میں نے وتر پڑھ لیا اور پھر عبد اللہ بن عمر ؓ سے جا ملا۔ آپ نے پوچھا کہ کہاں رک گئے تھے؟ میں نے کہا کہ اب صبح کا وقت ہونے ہی والا تھا اس لیے میں سواری سے اتر کر وتر پڑھنے لگا۔ اس پر حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ کیا تمہارے لیے نبی کریم ﷺ کا عمل اچھا نمونہ نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا کیوں نہیں بے شک ہے۔ آپ ؓ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ تو اونٹ ہی پر وتر پڑھ لیا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کا اسوہ حسنہ ہی بہر حال قابل اقتداء اور باعث صدبرکات ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Yasar (RA): I was going to Makkah in the company of 'Abdullah bin 'Umar and when I apprehended the approaching dawn, I dismounted and offered the Witr prayer and then joined him. 'Abdullah bin 'Umar said, "Where have you been?" I replied, "I apprehended the approaching dawn so I dismounted and prayed the Witr prayer." 'Abdullah said, "Isn't it sufficient for you to follow the good example of Allah's Apostle?" I replied, "Yes, by Allah." He said, "Allah's Apostle (ﷺ) used to pray Witr on the back of the camel (while on a journey)."