مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
211.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ کا گزر دو قبروں سے ہوا، آپ نے فرمایا:’’ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی بات کے سلسلے میں نہیں ہے۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ایک تازہ شاخ لی اور درمیان سے چیر کر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ارشاد ہوا: ’’ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں، شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔‘‘
تشریح:
1۔ یہ باب بلاعنوان ہے۔ عام طورپر ایسے ابواب کی تین اغراض ہوتی ہیں: (1)۔ اس کا تعلق پہلے باب سے ہوتاہے گویا یہ اس کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2)۔ قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ حدیث پر غورو فکر کرکے خود کوئی عنوان قائم کریں۔ (3)۔ بعض اوقات یہ بھی اشارہ ہوتا ہے کہ باب بلاعنوان کے تحت آنے والی حدیث سے متعدد مسائل ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اس پر کوئی ایک عنوان قائم کرکے اسے محدود نہیں کیاجاتا۔ اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کیا غرض ہے اس کے متعلق شارحین نے مختلف وجوہات لکھیں ہیں: (الف)۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کے تراجم ابواب میں لکھا ہے کہ باب کا لفظ صرف ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے میں ہے، بخاری کے دوسرے نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ لہذااس کا حذف ہی بہتر ہے۔ (ب)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ باب سابق باب کی فصل ہے، لیکن اس موقف سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سابق باب کی فصل قراردینے کے لیے دوچیزوں کا ہوناضروری ہے۔1۔ ان دونوں میں کسی اعتبار سے اتحادہو۔ 2۔ دوسری جہت سے ان میں مغایرت کا پہلو بھی نماہاں ہو۔ اگر اسے باب سابق ’’ غسل البول‘‘ کی فصل تسلیم کریں تو کلی طور پر مغایرت ہے، کسی اعتبار سے بھی ان میں اتحاد نہیں۔ اگر اس سے پہلے باب کی فصل تسلیم کریں تواس میں کلی اتحاد ہے کیونکہ وہاں بھی اس حدیث کو بیان کیاگیا ہے۔ اسے دوبارہ یہاں پربیان کرنا چہ معنی دارد۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس باب بلاعنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اختلاف سند دکھانا ہے، گزشتہ روایت مجاہد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی اور مذکورہ روایت مجاہد عن طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، یعنی یہ روایت بواسطہ طاؤس ہے جبکہ پہلی براہ راست تھی۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طریق کی صحت تسلیم کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث مذکور کو بواسطہ طاؤس اور براہ راست دونوں طرح سنا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ طاؤس والی روایت کو اصح کہا ہے۔ (عمدة القاري: 604/2) ہمارے نزدیک اس باب بلاعنوان کی غرض قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا ہے کہ وہ خود اس کے سیاق وسباق کا لحاظ کرکے کوئی موزوں عنوان قائم کریں، چنانچہ یہاں مندرجہ ذیل عنوان مناسب ہے: (البول موجبا لعذاب القبر) پہلے باب میں اس کا کبیرہ گناہ ہوناثابت کیاتھااور یہاں تنبیہ فرمائی کہ عذاب قبر بھی کبیرہ گناہ کے باعث ہوتا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ مستقل باب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے قائم کیا ہے کہ غسل بول پر واضح دلالت ہوجائے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب کا دھونا واجب ہے، ہاں! ڈھیلے سے استنجا کرنے کی صورت میں رخصت ثابت ہے بشرطیکہ اپنے محل سے منتشر نہ ہو۔ اگرپیشاب اپنے محل سے منتشر ہواتوڈھیلے سے استنجا کرنے کے باوجود اس کا دھونا اس حدیث سے ثابت ہوگا، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض محل سے منتشر شدہ بول کے وجوب غسل پر تنبیہ ہے۔ (فتح الباری:420/1) 3۔ ابن بطال نے لکھاہے کہ لایستتر کے معنی یہ ہیں: اپنے جسم اور کپڑوں کوپیشاب سے نہیں بچاتاتھا، پھر جب اس کے دھونے سے بے پروائی اور اسے معمولی خیال کرنے کی وجہ سے عذاب کی وعید ہے تو معلوم ہوا کہ جو شخص پیشاب کو اس کے مخرج میں چھوڑ دے گا اسے نہ دھوئے گا وہ بھی مستحق عذاب ہوگا۔ صحیح بخاری کےعلاوہ دوسری روایت میں ( لَايَستَبرِئُ) کے الفاظ ہیں، یعنی پیشاب کے بعد کوئی قطرہ آنے والاہوتو اسے نکال دینے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیےضروری ہے کہ استنجا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پیشاب کی نالی میں کوئی قطرہ باقی نہ رہے۔ اگر اس میں بے پروائی کی اور وضو کے بعد پیشاب کا قطرہ ،برآمد ہواتو وضو ساقط ہوکر نماز بھی صحیح نہ ہوگی۔ (شرح ابن بطال: 325/2) آج کل چونکہ مثانے کی کمزوری کے متعلق عام شکایت ہے، اس لیے استنجا کرتے وقت تحریک ونثر(جھاڑنے) کے ذریعے سے پیشاب گاہ کو بالکل خالی کرلینا چاہیے۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ عذاب قبر کا پیشاب سے پرہیز نہ کرنے اورچغلی کرنے سے گہرا تعلق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان مناسبت کی توضیح کی ہے کہ برزخ مقدمہ آخرت ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق اللہ میں سے نماز کا فیصلہ کیا جائے گا او رنماز بھی وہ قبول ہوگی جو حدث وخبث سے طہارت پر مبنی ہوگی اور حقو ق العباد میں سے قتل وخون کے فیصلے سب سے پہلے ہوں گے اور قتل وخون کابڑا سرچشمہ غیبت اور چغل خوری ہے۔ جب ایک کی بات دوسرے تک فساد وشرانگیزی کی نیت سے پہنچائی جائے گی تو اس سے جذبات مشتعل ہوں گے اور قتل وخون ناحق تک نوبت پہنچ جائے گی۔ (فتح الباري:579/10) (5)۔ اصلاحی صاحب نے اس روایت کے متعلق بھی اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا ہے اور ان کے پیش نظر اسے محل نظرقرار دیا ہے۔ اس روایت میں حضرت امام اعمش کا نام آیا ہے۔ ان کے متعلق امام تدبر کا تبصرہ سنیے۔ ’’ اعمش کے متعلق رجال کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ شیعیت کے لیے متہم تھے۔ یہ بات ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح زہری روایات میں ملاوٹ کر دیتے ہیں اسی طریقے سے اعمش نے یہاں یہ کیا ہے۔ (تدبر حدیث: 310/1) رجال کے ماہرین میں سے یحییٰ القطان کانام سرفہرست ہے۔ امام اعمش کے متعلق یحییٰ القطان فرماتے ہیں کہ یہ نہایت عبادت گزار اور اسلام کی ایک علامت تھے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش انھیں سید المحدثین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ ( تهذیب الکمال في أسماء الرجال: 113/114/8)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
218
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
218
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
218
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
218
تمہید کتاب
ہر مکلف پر سب سے پہلے ایمان کی پابندی عائد ہوتی ہے ، پھر وہ چیزیں جو ایمان کے لیے مطلوب ہیں اور جن پر عمل پیرا ہونے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں، ایمان کے بعد اعمال کی ضرورت ہے کیونکہ اعمال ہی ایمان کے لیے سیڑھی کاکام دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:(إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ) "صاف ستھرے کلمات اللہ کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل انھیں بلند کرتے ہیں۔"( فاطر:35۔10۔) اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ارکان اسلام میں سے نماز کی ادائیگی کے متعلق قرآن مجید نے بہت زور دیا ہے، نماز کی قبولیت طہارت پر موقوف ہے اور طہارت نماز کے لیے شرط ہے اور شرط ہمیشہ مشروط پر مقدم ہوتی ہے ،اس لیے عبادات سے پہلے کتاب ولوضو کو بیان کیا گیا ہے۔لفظ وضو وضاءۃسے مشتق ہے جس کے لغوی معنی خوبصورتی اور چمک ہیں۔شرعی اصطلاح میں ایک خاص طریقے سے مخصوص اعضاء کو دھونا وضو کہلاتا ہے۔ لغوی معنی سے اس کی مطابقت یہ ہے کہ وضو کرنے والا بھی پانی کے استعمال کرنے سے صاف ستھرا اور خوبصورت ہو جاتا ہے۔نیز قیامت کے دن اعضائے وضو خوبصورت ہوں گے اور ان پر چمک ہوگی۔ لفظ وضو کی داؤ پر اگر پیش پڑھی جائے تو معنی اصطلاحی وضو ہوتے ہیں، واؤ فتحہ کے ساتھ ہوتو وہ پانی مراد ہوتا ہے جو اس عمل کا ذریعہ ہے۔ اور واؤ کو کسرے کے ساتھ پڑھنے سے وہ برتن مراد ہوتا ہے جس میں وضو کے لیے پانی ڈالا جاتا ہے۔وضو ،دروضو و ضو تازہ دار"وضو کا پانی وضو کے برتن میں وضو تازہ کرو۔"عبادت نماز کے لیے وضو کا عمل ان خصوصیات اسلام میں سے ہے جن کی نظیر دیگر مذاہب عالم میں نہیں ملتی، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس بڑے عنوان کے تحت وضو سے متعلق چھوٹے چھوٹے 75 ذیلی عنوان قائم کیے ہیں جن میں اس کا وجوب ،علت وجوب ، اہمیت،وافادیت ،فضیلت وخصوصیت ،شرائط وواجبات ، صفات و مقدمات اور احکام و آداب بیان فرمائے ہیں۔چونکہ وضو سے پہلے انسانی حاجات سے فارغ ہونا ضروری ہے، اس لیے گھر اور باہر اس سے فراغت کے آداب واحکام اور حدود و شرائط بیان کی ہیں پھر جس پانی سے وضو کیا جاتا ہے اور جس برتن میں پانی ڈالاجاتا ہے اس کی طہارت ، نجاست آلود ہونے کی صورت میں اس کا طریقہ طہارت ، پھر وضو کے لیے مقدار پانی اور نواقص وضو کی وضاحت کی ہے وضو سے بچا ہوا پانی اس کا استعمال کن چیزوں کے استعمال کے بعد وضو ضروری ہے یا ضروری نہیں۔؟اس مناسبت سے پیشاب کے ااحکام ،حیوانات کے بول و براز کے مسائل پھر مسواک کے فوائد بیان کیے ہیں آخر میں ہمیشہ باوضو رہنے کی فضیلت بیان کر کے اس قسم کے پاکیزہ عمل کو اپنانے کی تلقین فرمائی ہے۔ الغرض امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب الوضوء میں بے شمار معارف وحقائق اور لطائف و دقائق بیان کیے ہیں۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اس مختصر تمہید کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کریں تاکہ ہمیں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت و فقاہت کا عملی تجربہ ہو۔ واللہ ولی التوفیق وھو الہادی من یشاء الی صراط مستقیم ۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ کا گزر دو قبروں سے ہوا، آپ نے فرمایا:’’ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑی بات کے سلسلے میں نہیں ہے۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا پھرتا تھا۔‘‘ پھر آپ نے ایک تازہ شاخ لی اور درمیان سے چیر کر اسے دو حصوں میں تقسیم کیا اور ہر قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ ارشاد ہوا: ’’ جب تک یہ شاخیں خشک نہ ہوں، شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو جائے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔ یہ باب بلاعنوان ہے۔ عام طورپر ایسے ابواب کی تین اغراض ہوتی ہیں: (1)۔ اس کا تعلق پہلے باب سے ہوتاہے گویا یہ اس کا تکملہ اور تتمہ ہے۔ (2)۔ قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ حدیث پر غورو فکر کرکے خود کوئی عنوان قائم کریں۔ (3)۔ بعض اوقات یہ بھی اشارہ ہوتا ہے کہ باب بلاعنوان کے تحت آنے والی حدیث سے متعدد مسائل ثابت ہوتے ہیں، اس لیے اس پر کوئی ایک عنوان قائم کرکے اسے محدود نہیں کیاجاتا۔ اس مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی کیا غرض ہے اس کے متعلق شارحین نے مختلف وجوہات لکھیں ہیں: (الف)۔ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری کے تراجم ابواب میں لکھا ہے کہ باب کا لفظ صرف ابوزر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نسخے میں ہے، بخاری کے دوسرے نسخوں میں یہاں لفظ باب نہیں ہے۔ لہذااس کا حذف ہی بہتر ہے۔ (ب)۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ باب سابق باب کی فصل ہے، لیکن اس موقف سے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سابق باب کی فصل قراردینے کے لیے دوچیزوں کا ہوناضروری ہے۔1۔ ان دونوں میں کسی اعتبار سے اتحادہو۔ 2۔ دوسری جہت سے ان میں مغایرت کا پہلو بھی نماہاں ہو۔ اگر اسے باب سابق ’’ غسل البول‘‘ کی فصل تسلیم کریں تو کلی طور پر مغایرت ہے، کسی اعتبار سے بھی ان میں اتحاد نہیں۔ اگر اس سے پہلے باب کی فصل تسلیم کریں تواس میں کلی اتحاد ہے کیونکہ وہاں بھی اس حدیث کو بیان کیاگیا ہے۔ اسے دوبارہ یہاں پربیان کرنا چہ معنی دارد۔ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس باب بلاعنوان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اختلاف سند دکھانا ہے، گزشتہ روایت مجاہد عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھی اور مذکورہ روایت مجاہد عن طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے، یعنی یہ روایت بواسطہ طاؤس ہے جبکہ پہلی براہ راست تھی۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں طریق کی صحت تسلیم کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث مذکور کو بواسطہ طاؤس اور براہ راست دونوں طرح سنا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بواسطہ طاؤس والی روایت کو اصح کہا ہے۔ (عمدة القاري: 604/2) ہمارے نزدیک اس باب بلاعنوان کی غرض قارئین کی ذہنی استعداد بڑھانا ہے کہ وہ خود اس کے سیاق وسباق کا لحاظ کرکے کوئی موزوں عنوان قائم کریں، چنانچہ یہاں مندرجہ ذیل عنوان مناسب ہے: (البول موجبا لعذاب القبر) پہلے باب میں اس کا کبیرہ گناہ ہوناثابت کیاتھااور یہاں تنبیہ فرمائی کہ عذاب قبر بھی کبیرہ گناہ کے باعث ہوتا ہے۔ 2۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ مستقل باب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس لیے قائم کیا ہے کہ غسل بول پر واضح دلالت ہوجائے۔ اس میں شک نہیں کہ پیشاب کا دھونا واجب ہے، ہاں! ڈھیلے سے استنجا کرنے کی صورت میں رخصت ثابت ہے بشرطیکہ اپنے محل سے منتشر نہ ہو۔ اگرپیشاب اپنے محل سے منتشر ہواتوڈھیلے سے استنجا کرنے کے باوجود اس کا دھونا اس حدیث سے ثابت ہوگا، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض محل سے منتشر شدہ بول کے وجوب غسل پر تنبیہ ہے۔ (فتح الباری:420/1) 3۔ ابن بطال نے لکھاہے کہ لایستتر کے معنی یہ ہیں: اپنے جسم اور کپڑوں کوپیشاب سے نہیں بچاتاتھا، پھر جب اس کے دھونے سے بے پروائی اور اسے معمولی خیال کرنے کی وجہ سے عذاب کی وعید ہے تو معلوم ہوا کہ جو شخص پیشاب کو اس کے مخرج میں چھوڑ دے گا اسے نہ دھوئے گا وہ بھی مستحق عذاب ہوگا۔ صحیح بخاری کےعلاوہ دوسری روایت میں ( لَايَستَبرِئُ) کے الفاظ ہیں، یعنی پیشاب کے بعد کوئی قطرہ آنے والاہوتو اسے نکال دینے کی کوشش نہیں کرتا تھا، اس لیےضروری ہے کہ استنجا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پیشاب کی نالی میں کوئی قطرہ باقی نہ رہے۔ اگر اس میں بے پروائی کی اور وضو کے بعد پیشاب کا قطرہ ،برآمد ہواتو وضو ساقط ہوکر نماز بھی صحیح نہ ہوگی۔ (شرح ابن بطال: 325/2) آج کل چونکہ مثانے کی کمزوری کے متعلق عام شکایت ہے، اس لیے استنجا کرتے وقت تحریک ونثر(جھاڑنے) کے ذریعے سے پیشاب گاہ کو بالکل خالی کرلینا چاہیے۔ 4۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ عذاب قبر کا پیشاب سے پرہیز نہ کرنے اورچغلی کرنے سے گہرا تعلق ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان دونوں کے درمیان مناسبت کی توضیح کی ہے کہ برزخ مقدمہ آخرت ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے حقوق اللہ میں سے نماز کا فیصلہ کیا جائے گا او رنماز بھی وہ قبول ہوگی جو حدث وخبث سے طہارت پر مبنی ہوگی اور حقو ق العباد میں سے قتل وخون کے فیصلے سب سے پہلے ہوں گے اور قتل وخون کابڑا سرچشمہ غیبت اور چغل خوری ہے۔ جب ایک کی بات دوسرے تک فساد وشرانگیزی کی نیت سے پہنچائی جائے گی تو اس سے جذبات مشتعل ہوں گے اور قتل وخون ناحق تک نوبت پہنچ جائے گی۔ (فتح الباري:579/10) (5)۔ اصلاحی صاحب نے اس روایت کے متعلق بھی اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کا اظہار کیا ہے اور ان کے پیش نظر اسے محل نظرقرار دیا ہے۔ اس روایت میں حضرت امام اعمش کا نام آیا ہے۔ ان کے متعلق امام تدبر کا تبصرہ سنیے۔ ’’ اعمش کے متعلق رجال کے ماہرین کہتے ہیں کہ وہ شیعیت کے لیے متہم تھے۔ یہ بات ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح زہری روایات میں ملاوٹ کر دیتے ہیں اسی طریقے سے اعمش نے یہاں یہ کیا ہے۔ (تدبر حدیث: 310/1) رجال کے ماہرین میں سے یحییٰ القطان کانام سرفہرست ہے۔ امام اعمش کے متعلق یحییٰ القطان فرماتے ہیں کہ یہ نہایت عبادت گزار اور اسلام کی ایک علامت تھے۔ حضرت ابوبکر بن عیاش انھیں سید المحدثین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ ( تهذیب الکمال في أسماء الرجال: 113/114/8)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ ﷺ دو قبروں پر گزرے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے ( ایسا ) کیوں کیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔
حدیث حاشیہ:
لایستتر من البول کا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ بعض روایات میں لایستنزه آیا ہے جس کا مطلب یہ کہ پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کیا کرتا تھا۔ مقصد ہر دو لفظوں کا ایک ہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Abbas (RA): The Prophet (ﷺ) once passed by two graves and said, "These two persons are being tortured not for a major sin (to avoid). One of them never saved himself from being soiled with his urine, while the other used to go about with calumnies (to make enmity between friends)." The Prophet (ﷺ) then took a green leaf of a date-palm tree, split it into (pieces) and fixed one on each grave. They said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Why have you done so?" He replied, "I hope that their punishment might be lessened till these (the pieces of the leaf) become dry." (See the foot-note of Hadith 215).