Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: If the garment is tight (over the body))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
362.
حضرت سہل (بن سعد) ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے ہمراہ کچھ صحابہ اپنی چادریں بچوں کی طرح گردنوں پر گرہ لگائے نماز پڑھتے تھے، چنانچہ مستورات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب تک لوگ سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں اس وقت تک وہ سجدے سے اپنا سر نہ اٹھائیں۔
تشریح:
1۔ بچوں کی طرح گردن پر کپڑے کی گرہ اس لیے لگائی جاتی تاکہ بحالت سجدہ مستور حصہ ظاہر نہ ہوجائے، لیکن اس اہتمام کے باوجود بھی ستر کھلنے کااندیشہ تھا۔ اس لیے عورتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ سجدے سے اپنے سر مردوں کے ساتھ ہی نہ اٹھا لیاکریں، بلکہ جب وہ مرد اچھی طرح بیٹھ جائیں تو پھر وہ سر اٹھائیں ابوداود (851) اور مسند احمد (348/6) میں اس کی یہ مصلحت بیان کی گئی ہے کہ کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے حصہ مستور پر نہ پڑ جائے، مبادا یہ کہ کسی فتنے کا باعث بن جائے۔ (فتح الباری:613/1) 2۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکپڑا بدن پر لپیٹا جاسکے تو تہہ بند کے طور پر استعمال کرنے کی نسبت اس میں زیادہ ستر پوشی ہے۔ اگرتنگ ہوتو اس کی دوصورتیں ہیں: اسے بطور تہ بند پہن لیاجائے یا گردن پر اس کی گرہ لگادی جائے۔ جیساکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں لکھا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
360
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
362
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
362
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
362
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تمہید باب
پہلے باب میں بیان ہواہےکہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کی ضرورت ہوتو اس کے دونوں کناروں کوالٹی سمت سے دونوں کندھوں پرڈال لیا جائے لیکن اگر کپڑا تنگ ہوکہ کندھوں پر نہ ڈالا جاسکے تو کیاکرے؟اس باب میں یہی وضاحت ہوگی کہ اسے بطور ازار(تہہ بند) کے استعمال کیا جائے۔
حضرت سہل (بن سعد) ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے ہمراہ کچھ صحابہ اپنی چادریں بچوں کی طرح گردنوں پر گرہ لگائے نماز پڑھتے تھے، چنانچہ مستورات کو ہدایت کی جاتی ہے کہ جب تک لوگ سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں اس وقت تک وہ سجدے سے اپنا سر نہ اٹھائیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔ بچوں کی طرح گردن پر کپڑے کی گرہ اس لیے لگائی جاتی تاکہ بحالت سجدہ مستور حصہ ظاہر نہ ہوجائے، لیکن اس اہتمام کے باوجود بھی ستر کھلنے کااندیشہ تھا۔ اس لیے عورتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ سجدے سے اپنے سر مردوں کے ساتھ ہی نہ اٹھا لیاکریں، بلکہ جب وہ مرد اچھی طرح بیٹھ جائیں تو پھر وہ سر اٹھائیں ابوداود (851) اور مسند احمد (348/6) میں اس کی یہ مصلحت بیان کی گئی ہے کہ کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے حصہ مستور پر نہ پڑ جائے، مبادا یہ کہ کسی فتنے کا باعث بن جائے۔ (فتح الباری:613/1) 2۔ اس سے یہ بھی معلوم ہواکہ اگرکپڑا بدن پر لپیٹا جاسکے تو تہہ بند کے طور پر استعمال کرنے کی نسبت اس میں زیادہ ستر پوشی ہے۔ اگرتنگ ہوتو اس کی دوصورتیں ہیں: اسے بطور تہ بند پہن لیاجائے یا گردن پر اس کی گرہ لگادی جائے۔ جیساکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے شرح تراجم بخاری میں لکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انھوں نے سفیان ثوری سے، انھوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی ؓ سے، انھوں نے کہا کہ کئی آدمی نبی کریم ﷺ کے ساتھ بچوں کی طرح اپنی گردنوں پر ازاریں باندھے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور عورتوں کو ( آپ کے زمانے میں ) حکم تھا کہ اپنے سروں کو ( سجدے سے ) اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔
حدیث حاشیہ:
کیونکہ مردوں کے بیٹھ جانے سے پہلے سراٹھانے میں کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے ستر پر نہ پڑجائے۔ اسی لیے عورتوں کو پہلے سراٹھانے سے منع فرمایا۔ اس زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتی تھیں اور مردوں کا لباس بھی اسی قسم کا ہوتا تھا۔ آج کل یہ صورتیں نہیں ہیں، پھر عورتوں کے لیے اب عیدگاہ میں بھی پر دے کا بہترین انتظام کردیا جاتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl (RA): The men used to pray with the Prophet (ﷺ) with their Izars tied around their necks as boys used to do; therefore the Prophet (ﷺ) told the women not to raise their heads till the men sat down straight (while praying).