باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
679.
حضرت ام المومنین عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایام علالت میں فرمایا: ’’ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر (فرطِ غم سے) رونے لگیں گے، اس وجہ سے لوگوں کو ان کی آواز سنائی نہیں دے گی، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ ؓ سے کہا کہ تم بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو گریے کے باعث لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ ؓ نے عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خاموش رہو، یقینا تم یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: میں نے کبھی تم سے کوئی فائدہ نہیں پایا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود اس حدیث کے ذریعے سے اپنے موقف کو مضبوط کرنا ہے کہ منصب امامت اہل علم و فضل کے لائق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باربار حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق اصرار کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعض حضرات نے ایک حدیث کی بنا پر جس میں سب سے زیادہ قاری کو مقدم کرنے کا ذکر ہے، یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جو سب سے بڑا قاری ہوتا تھا وہ سب سے بڑا عالم بھی ہوتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ قرآن کا زیادہ قاری امامت کرائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ کو منصب امامت پر فائز کیا جاتا کہ وہ بڑے قاری ہونے کی وجہ سے بڑے عالم بھی تھے جیسا کہ ان کا أَقرَأ (بڑاقاری) ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث:154) پھر وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اس وصف کے ساتھ مشہور تھے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق فرمایاتھا کہ حضرت ابی ؓ قرآن کے بڑے قاری ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5005) الغرض امامت کے لیے اہل علم وتقویٰ حضرات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:124/1) (2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو چیز مجھے بار بار رسول اللہ ﷺ سے تکرار پرابھاررہی تھی وہ یہ تھی کہ لوگ کبھی بھی اس شخص سے محبت نہیں رکھیں گے جو آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ میرے خیال کے مطابق ایسے حالات میں جو بھی آپ کے مقام پر کھڑا ہوگا۔ لوگ اس کے متعلق برا شگون رکھیں گے، چنانچہ میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خود ہی حضرت ابو بکر ؓ کو اس "خرابی" سے بچا لیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4445) اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظاہر وباطن کے تضاد میں تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو اور حضرت حفصہ ؓ چونکہ اس سے پہلے بھی شہد والے واقعے میں حضرت عائشہ ؓ کی بات ماننے کی وجہ سے زیر عتاب آچکی تھیں، اس لیے فرمایا کہ میرا تم سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ والله أعلم۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
670
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
679
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
679
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
679
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت ام المومنین عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے اپنے ایام علالت میں فرمایا: ’’ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: ابوبکر ؓ آپ کی جگہ کھڑے ہو کر (فرطِ غم سے) رونے لگیں گے، اس وجہ سے لوگوں کو ان کی آواز سنائی نہیں دے گی، لہذا آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت حفصہ ؓ سے کہا کہ تم بھی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے کہو کہ ابوبکر ؓ جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو گریے کے باعث لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے، اس لیے آپ حضرت عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، چنانچہ حضرت حفصہ ؓ نے عرض کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’خاموش رہو، یقینا تم یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتوں کی طرح ہو۔ ابوبکر ؓ سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔‘‘ اس پر حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: میں نے کبھی تم سے کوئی فائدہ نہیں پایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کا مقصود اس حدیث کے ذریعے سے اپنے موقف کو مضبوط کرنا ہے کہ منصب امامت اہل علم و فضل کے لائق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ باربار حضرت ابوبکر ؓ کے متعلق اصرار کررہے ہیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ بعض حضرات نے ایک حدیث کی بنا پر جس میں سب سے زیادہ قاری کو مقدم کرنے کا ذکر ہے، یہ موقف اختیار کیا ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں جو سب سے بڑا قاری ہوتا تھا وہ سب سے بڑا عالم بھی ہوتا تھا، اس لیے آپ نے فرمایا کہ قرآن کا زیادہ قاری امامت کرائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ حضرت ابی بن کعب ؓ کو منصب امامت پر فائز کیا جاتا کہ وہ بڑے قاری ہونے کی وجہ سے بڑے عالم بھی تھے جیسا کہ ان کا أَقرَأ (بڑاقاری) ہونا حدیث سے ثابت ہے۔ (سنن ابن ماجة، المقدمة، حدیث:154) پھر وہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اس وصف کے ساتھ مشہور تھے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کے متعلق فرمایاتھا کہ حضرت ابی ؓ قرآن کے بڑے قاری ہیں۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث:5005) الغرض امامت کے لیے اہل علم وتقویٰ حضرات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ (حاشیة السندي:124/1) (2) صحیح بخاری کی ایک روایت میں خود حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جو چیز مجھے بار بار رسول اللہ ﷺ سے تکرار پرابھاررہی تھی وہ یہ تھی کہ لوگ کبھی بھی اس شخص سے محبت نہیں رکھیں گے جو آپ ﷺ کی جگہ پر کھڑا ہوگا۔ میرے خیال کے مطابق ایسے حالات میں جو بھی آپ کے مقام پر کھڑا ہوگا۔ لوگ اس کے متعلق برا شگون رکھیں گے، چنانچہ میں چاہتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ خود ہی حضرت ابو بکر ؓ کو اس "خرابی" سے بچا لیں۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4445) اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ظاہر وباطن کے تضاد میں تم یوسف علیہ السلام کے ساتھ والی عورتوں کی طرح معلوم ہوتی ہو اور حضرت حفصہ ؓ چونکہ اس سے پہلے بھی شہد والے واقعے میں حضرت عائشہ ؓ کی بات ماننے کی وجہ سے زیر عتاب آچکی تھیں، اس لیے فرمایا کہ میرا تم سے کسی بھلائی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ والله أعلم۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؓ علیہ نے ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی للہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیماری میں فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو روتے روتے وہ (قرآن مجید) سنا نہ سکیں گے، اس لیے آپ عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ فرماتی تھیں کہ میں نے حفصہ ؓ سے کہا کہ وہ بھی کہیں کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو روتے روتے لوگوں کو (قرآن) نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حفصہ ؓ (ام المؤمنین اور حضرت عمر ؓ کی صاحبزادی) نے بھی اسی طری کہا تو آپ نے فرمایا کہ خاموش رہو۔ تم صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پس حضرت حفصہ ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا۔ بھلا مجھ کو کہیں تم سے بھلائی پہنچ سکتی ہے؟
حدیث حاشیہ:
اس واقعہ سے متعلق احادیث میں ''صواحب یوسف'' کا لفظ آتا ہے۔ صواحب صاحبة کی جمع ہے، لیکن یہاں مراد صرف زلیخا سے ہے۔ اسی طرح حدیث میں ''أنتم'' کی ضمیر جمع کے لیے استعمال ہوتی ہے، لیکن یہاں بھی صرف ایک ذات عائشہ ؓ کی مراد ہے۔ یعنی زلیخا نے عورتوں کے اعتراض کے سلسلے کو بند کرنے کے لیے انہیں بظاہر دعوت دی اور اعزاز و اکرام کیا، لیکن مقصد صرف یوسف ؑ کو دکھانا تھا کہ تم مجھے کیا ملامت کرتی ہو بات ہی کچھ ایسی ہے کہ میں مجبور ہوں۔ جس طرح اس موقع پر زلیخا نے اپنے دل کی بات چھپائے رکھی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ بھی جن کی دلی تمنا یہی تھی کہ ابوبکر ؓ نماز پڑھائیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ سے مزید توثیق کے لیے ایک دوسرے عنوان سے بار بار پچھواتی تھیں۔ حضرت حفصہ ؓ نے ابتداء میں غالباً بات نہیں سمجھی ہوگی۔ اور بعد میں جب آنحضور ﷺ نے زور دیا۔ تو وہ بھی حضرت عائشہ ؓ کا مقصد سمجھ گئیں اور فرمایا کہ میں بھلا تم سے کبھی بھلائی کیوں دیکھنے لگی۔ (تفہیم البخاری، ص:82پ:3 ) حضرت حفصہ ؓ کا مطلب یہ تھا کہ آخر تم سوکن ہو، تو کیسی ہی سہی تم نے ایسی صلاح دی کہ آنحضرت ﷺ کو مجھ پر خفا کرا دیا۔ اس حدیث سے اہل دانش سمجھ سکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو قطعی طور پر یہ منظور نہ تھا کہ ابوبکر ؓ کے سوا اور کوئی امامت کرے اور باوجودیکہ حضرت عائشہ ؓ جیسی پیاری بیوی نے تین بار معروضہ پیش کیا۔ مگر آپ نے ایک نہ سنی۔ پس اگر حدیث القرطاس میں بھی آپ کا منشاء یہی ہوتا کہ خواہ مخواہ کتاب لکھی جائے تو آپ ضرور لکھوا دیتے اور حضرت عمر ؓ کے جھگڑے کے بعد آپ کئی دن زندہ رہے مگر دوبارہ کتاب لکھوانے کا حکم نہیں فرمایا۔ (وحیدی)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aishah (RA): The mother of the believers: Allah's Apostle (ﷺ) in his illness said, "Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in prayer." I said to him, "If Abu Bakr (RA) stands in your place; the people would not hear him owing to his (excessive) weeping. So please order 'Umar to lead the prayer." 'Aishah (RA) added I said to Hafsah (RA), "Say to him: If Abu Bakr (RA) should lead the people in the prayer in your place, the people would not be able to hear him owing to his weeping; so please, order 'Umar to lead the prayer." Hafsah (RA) did so but Allah's Apostle (ﷺ) said, "Keep quiet! You are verily the Companions of Joseph. Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer. “Hafsah (RA) said to 'Aisha (RA), "I never got anything good from you."