Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: To recite aloud in the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ام سلمہ ؓنے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ ( نماز میں ) سورہ طور پڑھ رہے تھے۔
740.91.
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں انصار کی امامت کراتا تھا۔ اس کی یہ عادت تھی کہ جن نمازوں میں قراءت بآواز بلند کی جاتی ہے ان میں جب وہ کوئی سورت شروع کرنے کا ارادہ کرتا تو اس سے پہلے {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} سے آغاز کرتا۔ اس سے فراغت کے بعد پھر کوئی دوسری سورت شروع کرتا۔ وہ ہر رکعت میں ایسے ہی کرتا تھا۔ اس کے مقتدیوں نے اس سے بات کی اور کہا کہ تم اس سورت سے ابتدا کرتے ہو پھر تم اسے کافی خیال نہیں کرتے یہاں تک کہ دوسری سورت پڑھتے ہو، لہٰذا تم اسی سورت کو پڑھو، اس کے ساتھ دوسری سورت نہ ملاؤ یا اسے چھوڑ کر صرف دوسری سورت پڑھا کرو۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو اس سورت کو نہیں چھوڑ سکتا اگر تم اسے ناپسند کرتے ہو تو میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں (سورت کو نہیں چھوڑ سکتا)۔ اہل قباء اسے اپنے میں سے افضل خیال کرتے تھے، اس لیے انہوں نے اسے چھوڑ کر دوسرے کی امامت کو پسند نہ کیا۔ اتفاق سے جب نبیﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے یہ ماجرا آپ کو سنایا۔ آپ نے اس امام سے فرمایا:’’اے فلاں! تمہیں اپنے مقتدیوں کی بات ماننے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تو نے ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے کا التزام کر رکھا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس سورت سے محبت ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا:’’تیرا اس سورت سے محبت کرنا تجھے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا درست ہے۔ اگرچہ امام شعبی وغیرہ نے کہا ہے کہ ایک رکعت میں فاتحہ کے علاوہ ایک سورت سے زیادہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ مصنف عبدالرزاق میں ہے: حضرت ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے ایک رکعت میں مفصل کی سب سورتیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیا ہے؟ اللہ اگر چاہتا تو مفصل کی سب سورتوں کی ایک ہی سورت بنا کر نازل فرمادیتا، لہٰذا تم ہر سورت کو رکوع وسجود سے اس کا حصہ دو، لیکن اس موقف کے برعکس حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کی احادیث ہیں کہ رسول اللہ ؓ مفصل کی کئی کئی سورتیں ملا کر پڑھا کرتے تھے، نیز ایک رات آپ نے نماز تہجد میں سورۂ بقرہ، آل عمران اور نساء اکٹھی پڑھی تھیں۔(عمدةالقاري:492/4) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ امام کا نام کلثوم بن ہدم ہے۔ جیسا کہ ابن مندہ نے کتاب التوحید میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فوجی دستے کا امیر بنا کر کسی مہم پر روانہ کیا۔وہ جب جماعت کراتا تو قراءت کا اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ سے کرتا تھا۔ جب وہ واپس آئے تو انھوں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا تھا۔ جب انھوں نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ سورت اللہ رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے، اس لیے میں اسے تلاوت کرنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7375) ان دونوں واقعات میں حسب ذیل فرق ہے:٭اہل قباء کا امام قراءت کا آغاز﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾) سے کرتا تھا جبکہ فوجی دستے کا امیر قراءت کے آخر میں اسے پڑھتا تھا۔٭ اہل قباء کا امام ہر رکعت میں ایسا کرتا تھا جبکہ امیر السریہ کے متعلق ایسی صراحت نہیں ہے۔٭اہل قباء کے امام سے خود رسول اللہ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی جبکہ امیر سے اس کے ساتھیوں نے پوچھا۔٭ اہل قباء کے امام نے جواب دیا کہ مجھے اس سورت سے محبت ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی جبکہ فوجی دستے کے امیر نے بتایا کہ یہ رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔٭اہل قباء کا امام فوجی دستے بھیجنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تھا جبکہ فوجی دستے کا امیر دیر تک زندہ رہا۔ (فتح الباري:334/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
765.91
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
774.91
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
774.01
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
774.01
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
اس تعلیق کو امام بخاری رحمہ اللہ نے موصولا بیان کیا ہے۔(صحیح البخاری،الحج،حدیث:1619) اس روایت میں ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیماری کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرلو کیونکہ دوران نماز میں نمازی کے آگے سے گزرنا منع ہے۔ چونکہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں سورۂ والطور پڑھتے سنا، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مدعا ثابت ہوگیا۔
اور ام سلمہ ؓنے کہا کہ میں نے لوگوں کے پیچھے ہو کر کعبہ کا طواف کیا۔ اس وقت نبی کریم ﷺ ( نماز میں ) سورہ طور پڑھ رہے تھے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری شخص مسجد قباء میں انصار کی امامت کراتا تھا۔ اس کی یہ عادت تھی کہ جن نمازوں میں قراءت بآواز بلند کی جاتی ہے ان میں جب وہ کوئی سورت شروع کرنے کا ارادہ کرتا تو اس سے پہلے {قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ} سے آغاز کرتا۔ اس سے فراغت کے بعد پھر کوئی دوسری سورت شروع کرتا۔ وہ ہر رکعت میں ایسے ہی کرتا تھا۔ اس کے مقتدیوں نے اس سے بات کی اور کہا کہ تم اس سورت سے ابتدا کرتے ہو پھر تم اسے کافی خیال نہیں کرتے یہاں تک کہ دوسری سورت پڑھتے ہو، لہٰذا تم اسی سورت کو پڑھو، اس کے ساتھ دوسری سورت نہ ملاؤ یا اسے چھوڑ کر صرف دوسری سورت پڑھا کرو۔ اس نے جواب دیا کہ میں تو اس سورت کو نہیں چھوڑ سکتا اگر تم اسے ناپسند کرتے ہو تو میں تمہیں چھوڑ سکتا ہوں (سورت کو نہیں چھوڑ سکتا)۔ اہل قباء اسے اپنے میں سے افضل خیال کرتے تھے، اس لیے انہوں نے اسے چھوڑ کر دوسرے کی امامت کو پسند نہ کیا۔ اتفاق سے جب نبیﷺ ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے یہ ماجرا آپ کو سنایا۔ آپ نے اس امام سے فرمایا:’’اے فلاں! تمہیں اپنے مقتدیوں کی بات ماننے سے کس چیز نے روکا ہے؟ اور کیا وجہ ہے کہ تو نے ہر رکعت میں یہ سورت پڑھنے کا التزام کر رکھا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا کہ مجھے اس سورت سے محبت ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا:’’تیرا اس سورت سے محبت کرنا تجھے جنت میں داخل کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھنا درست ہے۔ اگرچہ امام شعبی وغیرہ نے کہا ہے کہ ایک رکعت میں فاتحہ کے علاوہ ایک سورت سے زیادہ نہیں پڑھنا چاہیے۔ کیونکہ مصنف عبدالرزاق میں ہے: حضرت ابن عمر ؓ سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے ایک رکعت میں مفصل کی سب سورتیں پڑھی ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ تم نے ایسا کیا ہے؟ اللہ اگر چاہتا تو مفصل کی سب سورتوں کی ایک ہی سورت بنا کر نازل فرمادیتا، لہٰذا تم ہر سورت کو رکوع وسجود سے اس کا حصہ دو، لیکن اس موقف کے برعکس حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حذیفہ ؓ کی احادیث ہیں کہ رسول اللہ ؓ مفصل کی کئی کئی سورتیں ملا کر پڑھا کرتے تھے، نیز ایک رات آپ نے نماز تہجد میں سورۂ بقرہ، آل عمران اور نساء اکٹھی پڑھی تھیں۔(عمدةالقاري:492/4) (2) حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ مذکورہ امام کا نام کلثوم بن ہدم ہے۔ جیسا کہ ابن مندہ نے کتاب التوحید میں بیان کیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ جسے حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو فوجی دستے کا امیر بنا کر کسی مہم پر روانہ کیا۔وہ جب جماعت کراتا تو قراءت کا اختتام ﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ﴾ سے کرتا تھا۔ جب وہ واپس آئے تو انھوں نے اس بات کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا۔ آپ نے فرمایا کہ اس سے پوچھو وہ ایسا کیوں کرتا تھا۔ جب انھوں نے اس سے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ یہ سورت اللہ رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے، اس لیے میں اسے تلاوت کرنا پسند کرتا ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے بتا دو کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، التوحید، حدیث:7375) ان دونوں واقعات میں حسب ذیل فرق ہے:٭اہل قباء کا امام قراءت کا آغاز﴿قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾) سے کرتا تھا جبکہ فوجی دستے کا امیر قراءت کے آخر میں اسے پڑھتا تھا۔٭ اہل قباء کا امام ہر رکعت میں ایسا کرتا تھا جبکہ امیر السریہ کے متعلق ایسی صراحت نہیں ہے۔٭اہل قباء کے امام سے خود رسول اللہ ﷺ نے وجہ دریافت فرمائی جبکہ امیر سے اس کے ساتھیوں نے پوچھا۔٭ اہل قباء کے امام نے جواب دیا کہ مجھے اس سورت سے محبت ہے اور اسے رسول اللہ ﷺ نے جنت کی بشارت دی جبکہ فوجی دستے کے امیر نے بتایا کہ یہ رحمٰن کی صفات پر مشتمل ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔٭اہل قباء کا امام فوجی دستے بھیجنے سے پہلے ہی فوت ہوگیا تھا جبکہ فوجی دستے کا امیر دیر تک زندہ رہا۔ (فتح الباري:334/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں لوگوں کے پیچھے سے طواف کر رہی تھی جبکہ نبی ﷺ نماز پڑھا رہے تھے اور نماز میں سورہ "الطور" کی تلاوت کر رہے تھے۔
حدیث ترجمہ:
عبید اللہ بن عمر نے ثابتؓ سے انہوں نے حضرت انس سے نقل کیا کہ انصار میں سے ایک شخص (کلثوم بن ہدم) قبا کی مسجد میں لوگوں کی امامت کیا کرتا تھا۔ وہ جب بھی کوئی سورۃ (سورۂ فاتحہ کے بعد) شروع کرتا تو پہلے { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } پڑھ لیتا۔ پھر کوئی دوسری سورۃ پڑھتا۔ ہر رکعت میں اس کا یہی عمل تھا۔ اس کے ساتھیوں نے اس سلسلے میں اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ تم پہلے یہ سورۃ پڑھتے ہو اور صرف اسی کو خیال نہیں کرتے بلکہ دوسری سورۃ بھی (اس کے ساتھ) ضرور پڑھتے ہو۔ یا تو تمہیں صرف اسی کو پڑھنا چاہیے ورنہ اسے چھوڑ دینا چاہیے اور بجائے اس کے کوئی دوسری سورۃ پڑھنی چاہیے۔ اس شخص نے کہا کہ میں اسے نہیں چھوڑ سکتا اب اگر تمہیں پسند ہے کہ میں نماز پڑھاؤں تو برابر پڑھاتا رہوں گا۔ ورنہ میں نماز پڑھانا چھوڑ دوں گا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ان سب سے افضل ہیں اس لیے وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی اور شخص نماز پڑھائے۔ جب نبیﷺ تشریف لائے تو ان لوگوں نے آپ کو واقعہ کی خبر دی۔ آپﷺ نے ان کو بلا کر پوچھا کہ اے فلاں! تمہارے ساتھی جس طرح کہتے ہیں اس پر عمل کرنے سے تم کو کون سی رکاوٹ ہے اور ہر رکعت میں اس سورۃ کو ضروری قرار دے لینے کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حضور! میں اس سورۃ سے محبت رکھتا ہوں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اس سورۃ کی محبت تمہیں جنت میں لے جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
One of the Ansar used to lead the Ansar in Salat in the Quba' mosque and it was his habit to recite Qul Huwal-lahu Ahad whenever he wanted to recite something in Salat. When he finished that Surah, he would recite another one with it. He followed the same procedure in each Rak'a. His companions discussed this with him and said, "You recite this Surah and do not consider it sufficient and then you recite another. So would you recite it alone or leave it and recite some other." He said, "I will never leave it and if you want me to be your Imam on this condition then it is all right ; otherwise I will leave you." They knew that he was the best amongst them and they did not like someone else to lead them in Salat. When the Prophet (ﷺ) went to them as usual, they informed him about it. The Prophet (ﷺ) addressed him and said, "O so-and-so, what forbids you from doing what your companions ask you to do ? Why do you read this Surah particularly in every Rak'a ?" He repiled, "I love this Surah." The Prophet (ﷺ) said, "Your love for this Surah will make you enter Paradise."