ترجمة الباب:
وقال النبي ﷺ: كلكم راع ومسئول عن رعيته فإذا لم يكن من سنته فهو كما قالت عائشة ؓ : لا تزر وازرة وزر اخرى وهو كقوله : وإن تدع مثقلة ذنوبا إلى حملها لا يحمل منه شيء وما يرخص من البكاء في غير نوح , وقال النبي ﷺ: لا تقتل نفس ظلما إلا كان على ابن آدم الاول كفل من دمها وذلك لانه اول من سن القتل .
باب: نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ میت پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے یعنی جب رونا ماتم کرنا میت کے خاندان کی رسم ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: The deceased is punished because of the weeping of his relatives)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
1255.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ زخمی کیے گئے تو حضرت صہیب ؓ روتے ہوئے کہنے لگے:ہائے میرے بھائی! حضرت عمر ؓ نے فرمایا:کیاتمھیں معلوم نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) ان احادیث کے ذریعے سے امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر ؓ کے درمیان ایک اختلاف کو حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ کسی میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ان کا اپنا فعل ہے، میت پر اس کا وبال نہیں پڑے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾(سورة الأنعام :164)’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ جبکہ حضرت ابن عمر ؓ اس کے برعکس یہ فرماتے تھے کہ میت کو گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہو گا اور اسے حدیث سے ثابت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا جواب دیا کہ حدیث میں ایک جزوی واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک یہودی عورت کو عذاب دیا جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جسے حضرت ابن عمر ؓ نے مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے لیے عام ضابطہ خیال کیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت ابن عمر ؓ کو غلطی اور سہو کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے بھی حضرت ابن عمر ؓ کی طرح کی روایات ملتی ہیں۔ اس بنا پر سب کو تو وہم نہیں ہو سکتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے میت کو اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہونے کی تقریبا آٹھ وجوہ بیان کی ہیں جنہیں بالتفصیل فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 198/3) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے جو توجیہ اختیار کی ہے اسے عنوان میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہو گا جب اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے نوحہ کا طریقہ جاری یا پسند کیا ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ و ماتم کریں گے، انہیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو، کیونکہ ایام جاہلیت میں لوگ اپنے مرنے پر نوحہ کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ اسلام نے نوحے اور ماتم سے منع فرمایا کہ رو رو کر مرنے والے کے اوصاف بیان نہ کیے جائیں یا ایسے اوصاف و افعال بیان نہ کیے جائیں جو شرعا ممنوع اور ناقابل بیان ہوں۔ صحیح اوصاف حمیدہ بیان کرنے پر کوئی قدغن نہیں، لیکن انہیں روتے ہوئے بیان نہ کیا جائے۔ نوحے کے بغیر رونے یا خودبخود آنسو آ جانے کی بھی اجازت ہے۔ (2) امام بخاری نے لفظ "بعض" سے اشارہ کیا کہ جو رونا غلط ہے اس کا سبب چونکہ میت ہے، اس لیے اسے عذاب ہو گا، کیونکہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ گھر والوں کو غلط راستے سے نہ روکنے کی بنا پر میت سے مؤاخذہ ہو گا۔ اور جس رونے کی اجازت ہے وہ تو باعث رحمت اور رقتِ قلب کی علامت ہے، اس کی وجہ سے عذاب نہ ہو گا۔ امام بخاری نے پیش کردہ احادیث سے اس پر استدلال کیا ہے، یعنی اس توجیہ کا حاصل، عنوان کے مسئلے کو متعدد احوال پر تقسیم کرنا ہے، نیز یہ بتانا ہے کہ شریعت جہاں گناہ کے ارتکاب کا مؤاخذہ کرتی ہے وہاں جو اس گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے، اسے بھی پکڑتی ہے، لہذا کسی ایک حکم کو سب حالات پر لاگو کرنا اور دوسری صورت کو بالکل نظرانداز کر دینا درست نہیں۔ امام ابن حزم ؒ کی توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اہل جاہلیت نوحہ کرتے وقت میت کے وہ افعال ذکر کیا کرتے تھے جو عذاب جہنم کا سزاوار بنانے والے ہوتے تھے، مثلا: تم نے فلاں قبیلے کو عداوت کی وجہ سے تہس نہس کر دیا، فلاں قبیلے پر غارت گری کی تھی، اس طرح کے مظالم کو وہ فخر کے طور پر بیان کرتے تھے۔ چونکہ یہ سب افعال شنیعہ میت کے ہوتے تھے، اس لیے ان کی وجہ سے اسے عذاب ہو گا، رونا اس کا سبب نہ ہو گا۔ بالفاظ دیگر میت کو عذاب اس کے اپنے افعال کی وجہ سے ہو گا دوسرے کے نوحہ کرنے سے نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے والوں سے خلاف شرع کام کرنے کی وجہ سے مؤاخذہ ہو گا۔ (3) یہ توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ عذاب سے مراد میت کو عار دلانا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا واقعہ ہے کہ جب ان پر غشی طاری ہوئی تو ان کی بہن نے نوحہ کرنا شروع کر دیا کہ تم ایسے تھے تم ایسے تھے۔ اس وقت فرشتوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ سے کہا کہ کیا واقعی تم ایسے تھے؟ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4267) الغرض حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی نفیس بحث کی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ (فتح الباري: 197/3، 198، 199) (4) جس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی میت کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اس پر گریہ وزاری کر رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ اس سے بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ کشید کیا ہے کہ عذاب قبر اس زمینی قبر میں نہیں ہوتا بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے، حالانکہ برزخی قبر کا انکشاف اس دور کی ایجاد ہے۔ قرون اولیٰ میں اس قبر سے کوئی متعارف نہیں تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾(سورة التوبة: 84)’’ان (منافقین) میں سے کوئی مر جائے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا ہے۔‘‘ اس مقام میں رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد زمینی قبر ہے کیونکہ ’’برزخی قبر‘‘ تک کسی بندہ بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ مذکورہ حدیث ایک اور سند سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی میت کی قبر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر گریہ و زاری کر رہے ہیں۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3129) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمینی قبر ہی سے گزرے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1255
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1290
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1290
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1290
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
تمہید باب
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا موقف تھا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ایسا کرنا عدل و انصاف کے خلاف ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مشہور اختلاف کے درمیان تطبیق کی ایک صورت پیدا کی ہے اور طویل بحث کی ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ گھر والوں کے رونے پیٹنے اور بین کرنے سے اس وقت عذاب ہو گا جب کسی شخص کی عادت نوحہ کرنے کی ہو اور اس کے گھر والے اس کی اقتدا کریں۔ اس صورت میں گویا اپنے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہو گا کیونکہ اس نے اپنی زندگی میں انہیں وعظ کر کے آگ سے نہ بچایا جبکہ وہ اپنے اہل خانہ کو آگ سے بچانے پر مامور تھا۔ تو اس کے مرنے کے بعد اس کے اہل خانہ کے نوحہ کرنے سے اسے عذاب دیا جائے گا۔ حدیث سے استدلال اس طرح ہے کہ جب اس نے نوحہ کیا تو اس نے اپنے نفس کی نگہبانی کی نہ اپنے گھر والوں ہی کی کیونکہ انہوں نے نوحہ کرنا خود اس سے سیکھا اور اس کی اقتدا کی۔ تو ان کے نوحہ کرنے کا سبب وہ خود ہوا، اس لیے اسے عذاب ہو گا۔ اور یہ ممکن ہے کہ سنت سے مراد وصیت ہو، یعنی مرتے وقت نوحہ کرنے کی وصیت کر جائے تو اسے اہل خانہ کے نوحہ کرنے کی وجہ سے عذاب ہو گا۔ اگر رونا دھونا اس کی عادت نہ تھی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے موقف کے مطابق کسی کے گناہ کا عذاب دوسرے کو نہیں ہو گا، یعنی کسی نفس کا مؤاخذہ کسی دوسرے کے گناہ کی بنا پر نہیں ہو گا۔ اس عنوان کا حاصل یہ ہے کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہو گا اس سے مراد بین کر کے رونا ہے۔ اس سے میت کو عذاب اس وقت ہو گا جب وہ اپنی زندگی میں نوحہ کرنے کا عادی ہو کیونکہ اس کا فعل اس کے اہل خانہ کے لیے طریقہ ہو جاتا ہے اور وہ اس طریقے کا سبب ہوتا ہے۔ اگر وہ اپنی زندگی میں ایسا کام نہیں کرتا تھا تو وہ ان کے طریقے کا سبب نہیں ہو گا۔ اس بنا پر ان کے رونے پیٹنے سے میت کو عذاب نہیں ہو گا۔ باب میں مذکور تعلیقات کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی اپنی صحیح میں مختلف مقامات پر موصولا بیان کیا ہے۔
کیونکہ اللہ پاک نے سورۃ التحریم میں فرمایا کہ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو برے کاموں سے منع کرو اور نبی کریم ﷺنے فرمایا تم میں ہر کوئی نگہبان ہے اور اپنے ماتحتوں سے پوچھا جائے گا اور اگر یہ رونا پیٹنا اس کے خاندان کی رسم نہ ہو اور پھر اچانک کوئی اس پر رونے لگے تو عائشہ ؓ کا دلیل لینا اس آیت سے صحیح ہے کہ کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کو اپنا بوجھ اٹھانے کو بلائے تو وہ اس کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور بغیر نوحہ چلائے پیٹے رونا درست ہے۔ اور نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ دنیا میں جب کوئی ناحق خون ہوتا ہے تو آدم کے پہلے بیٹے قابیل پر اس خون کا کچھ وبال پڑتا ہے کیونکہ ناحق خون کی بنا سب سے پہلے اسی نے ڈالی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر ؓ زخمی کیے گئے تو حضرت صہیب ؓ روتے ہوئے کہنے لگے:ہائے میرے بھائی! حضرت عمر ؓ نے فرمایا:کیاتمھیں معلوم نہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) ان احادیث کے ذریعے سے امام بخاری ؒ نے حضرت عائشہ اور حضرت ابن عمر ؓ کے درمیان ایک اختلاف کو حل کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی تھیں کہ کسی میت کو اس کے اہل خانہ کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب نہیں ہو گا، کیونکہ یہ ان کا اپنا فعل ہے، میت پر اس کا وبال نہیں پڑے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰ﴾(سورة الأنعام :164)’’کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘ جبکہ حضرت ابن عمر ؓ اس کے برعکس یہ فرماتے تھے کہ میت کو گھر والوں کے اس پر رونے کی وجہ سے عذاب ہو گا اور اسے حدیث سے ثابت کرتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا جواب دیا کہ حدیث میں ایک جزوی واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک یہودی عورت کو عذاب دیا جا رہا تھا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے تو عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں جسے حضرت ابن عمر ؓ نے مسلمانوں اور دوسرے لوگوں کے لیے عام ضابطہ خیال کیا۔ علماء نے لکھا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کا حضرت ابن عمر ؓ کو غلطی اور سہو کی طرف منسوب کرنا درست نہیں، کیونکہ دوسرے صحابہ کرام ؓ سے بھی حضرت ابن عمر ؓ کی طرح کی روایات ملتی ہیں۔ اس بنا پر سب کو تو وہم نہیں ہو سکتا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے میت کو اہل خانہ کے رونے کی وجہ سے عذاب ہونے کی تقریبا آٹھ وجوہ بیان کی ہیں جنہیں بالتفصیل فتح الباری میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (فتح الباري: 198/3) اس سلسلے میں امام بخاری ؒ نے جو توجیہ اختیار کی ہے اسے عنوان میں تفصیل سے بیان کر دیا ہے کہ میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے اس وقت عذاب ہو گا جب اس نے اپنے اہل و عیال کے لیے نوحہ کا طریقہ جاری یا پسند کیا ہو یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ اس کے مرنے کے بعد اس پر نوحہ و ماتم کریں گے، انہیں اس کام سے باز رہنے کی وصیت نہ کی ہو، کیونکہ ایام جاہلیت میں لوگ اپنے مرنے پر نوحہ کرنے کی وصیت کیا کرتے تھے۔ اسلام نے نوحے اور ماتم سے منع فرمایا کہ رو رو کر مرنے والے کے اوصاف بیان نہ کیے جائیں یا ایسے اوصاف و افعال بیان نہ کیے جائیں جو شرعا ممنوع اور ناقابل بیان ہوں۔ صحیح اوصاف حمیدہ بیان کرنے پر کوئی قدغن نہیں، لیکن انہیں روتے ہوئے بیان نہ کیا جائے۔ نوحے کے بغیر رونے یا خودبخود آنسو آ جانے کی بھی اجازت ہے۔ (2) امام بخاری نے لفظ "بعض" سے اشارہ کیا کہ جو رونا غلط ہے اس کا سبب چونکہ میت ہے، اس لیے اسے عذاب ہو گا، کیونکہ ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی اصلاح کرنی چاہیے۔ گھر والوں کو غلط راستے سے نہ روکنے کی بنا پر میت سے مؤاخذہ ہو گا۔ اور جس رونے کی اجازت ہے وہ تو باعث رحمت اور رقتِ قلب کی علامت ہے، اس کی وجہ سے عذاب نہ ہو گا۔ امام بخاری نے پیش کردہ احادیث سے اس پر استدلال کیا ہے، یعنی اس توجیہ کا حاصل، عنوان کے مسئلے کو متعدد احوال پر تقسیم کرنا ہے، نیز یہ بتانا ہے کہ شریعت جہاں گناہ کے ارتکاب کا مؤاخذہ کرتی ہے وہاں جو اس گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے، اسے بھی پکڑتی ہے، لہذا کسی ایک حکم کو سب حالات پر لاگو کرنا اور دوسری صورت کو بالکل نظرانداز کر دینا درست نہیں۔ امام ابن حزم ؒ کی توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ اہل جاہلیت نوحہ کرتے وقت میت کے وہ افعال ذکر کیا کرتے تھے جو عذاب جہنم کا سزاوار بنانے والے ہوتے تھے، مثلا: تم نے فلاں قبیلے کو عداوت کی وجہ سے تہس نہس کر دیا، فلاں قبیلے پر غارت گری کی تھی، اس طرح کے مظالم کو وہ فخر کے طور پر بیان کرتے تھے۔ چونکہ یہ سب افعال شنیعہ میت کے ہوتے تھے، اس لیے ان کی وجہ سے اسے عذاب ہو گا، رونا اس کا سبب نہ ہو گا۔ بالفاظ دیگر میت کو عذاب اس کے اپنے افعال کی وجہ سے ہو گا دوسرے کے نوحہ کرنے سے نہیں ہو گا۔ یہ الگ بات ہے کہ نوحہ و ماتم کرنے والوں سے خلاف شرع کام کرنے کی وجہ سے مؤاخذہ ہو گا۔ (3) یہ توجیہ بھی قابل ملاحظہ ہے کہ عذاب سے مراد میت کو عار دلانا ہے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ کا واقعہ ہے کہ جب ان پر غشی طاری ہوئی تو ان کی بہن نے نوحہ کرنا شروع کر دیا کہ تم ایسے تھے تم ایسے تھے۔ اس وقت فرشتوں نے حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ سے کہا کہ کیا واقعی تم ایسے تھے؟ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4267) الغرض حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی نفیس بحث کی ہے، اسے ایک نظر دیکھ لیا جائے۔ (فتح الباري: 197/3، 198، 199) (4) جس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی عورت کی میت کے پاس سے گزرے تو آپ نے فرمایا کہ یہ تو اس پر گریہ وزاری کر رہے ہیں جبکہ اسے اپنی قبر میں عذاب ہو رہا ہے۔ اس سے بعض فتنہ پرور لوگوں نے برزخی قبر کا شاخسانہ کشید کیا ہے کہ عذاب قبر اس زمینی قبر میں نہیں ہوتا بلکہ برزخی قبر میں ہوتا ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے، حالانکہ برزخی قبر کا انکشاف اس دور کی ایجاد ہے۔ قرون اولیٰ میں اس قبر سے کوئی متعارف نہیں تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾(سورة التوبة: 84)’’ان (منافقین) میں سے کوئی مر جائے تو آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہ ہی اس کی قبر پر کھڑے ہونا ہے۔‘‘ اس مقام میں رسول اللہ ﷺ کو منافقین کی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس سے مراد زمینی قبر ہے کیونکہ ’’برزخی قبر‘‘ تک کسی بندہ بشر کی رسائی نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ مذکورہ حدیث ایک اور سند سے اس طرح مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک یہودی میت کی قبر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: ’’اسے عذاب ہو رہا ہے اور اس کے اہل خانہ اس پر گریہ و زاری کر رہے ہیں۔‘‘(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3129) اس روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ زمینی قبر ہی سے گزرے تھے۔ اس کی تفصیل آئندہ بیان ہو گی۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔ "نیز ارشاد نبوی ہے: "تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور اس سے اپنی رعیت کے متعلق سوال ہوگا۔ "اورجب نوحہ کرنا اس کی عادت نہ ہوتو وہ حضرت عائشہ ؓ کے فرمان کے مطابق ہے: "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کابوجھ نہیں اٹھائے گا۔ : "نیز وہ فرمان الٰہی کے مطابق ہے کہ: "اگرکوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسرے کو بوجھ اٹھانے کے لیے بلائے تو اس سے کوئی چیز نہ اٹھائی جائے گی۔ "اور نوحہ کے بغیر رونے کی اجازت دی گئی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: "کوئی جان بھی ناحق قتل ہوتی ہے تو حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے(قابیل) پر اس خون ناحق کا بوجھ ہوگا کیونکہ اس نے قتل ناحق کا طریقہ رائج کیا تھا۔ "
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا‘ ان سے علی بن مسہر نے بیان کیا‘ ان سے ابواسحاق شیبانی نے‘ ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ان کے والد ابوموسیٰ اشعری نے کہ جب حضرت عمر ؓ کو زخمی کیا گیا تو صہیب ؓ یہ کہتے ہوئے آئے‘ ہائے میرے بھائی! اس پر حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ مردے کو اس کے گھروالوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
شوکانی ؒ نے کہا کہ رونا اور کپڑے پھاڑنا اور نوحہ کرنا یہ سب کام حرام ہیں ایک جماعت سلف کا جن میں حضرت عمر اور عبداللہ بن عمرؓ ہیں یہ قول ہے کہ میت کے لوگوں کے رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے اور جمہور علماء اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ عذاب اسے ہوتا ہے جو رونے کی وصیت کرجائے اور ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے مطلقاً یہ ثابت ہوا کہ میت پر رونے سے اس کو عذاب ہوتا ہے۔ ہم نے آپ ﷺ کے ارشاد کو مانا اور سن لیا۔ اس پر ہم کچھ زیادہ نہیں کرتے۔ امام نووی ؒ نے اس پر اجماع نقل کیا کہ جس رونے سے میت کو عذاب ہوتا ہے وہ رونا پکار کر رونا اور نوحہ کرنا ہے نہ کہ صرف آنسو بہانا۔ (وحیدي)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Burda (RA): That his father said, "When Umar was stabbed, Suhaib started crying: O my brother! 'Umar said, 'Don't you know that the Prophet (ﷺ) said: The deceased is tortured for the weeping of the living'?"