باب : جہاد کی فضیلت اور رسول اللہ ﷺ کے حالات کے بیان میں
)
Sahi-Bukhari:
Fighting for the Cause of Allah (Jihaad)
(Chapter: The superiority of Jihad)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
2685.
حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کرنے لگا: آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو جہاد کے برابر ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں کوئی ایسا عمل نہیں پانا جو جہاد کے برابر ہو۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا:’’ کیا تجھ میں طاقت ہے کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تو اپنی مسجد میں داخل ہوجائے، وہاں اللہ کی عبادت کرتا رہے اور ذرہ بھر سستی نہ کرے اور تو مسلسل روزے رکھتا رہے کوئی روزہ ترک نہ کرے؟‘‘ اس شخص نے عرض کیا: اس عمل کی کون طاقت رکھتا ہے؟ حضرت ابوہریرۃ ؓنے فرمایا: مجاہد کا گھوڑا جب رسی میں بندھا ہوا زمین پر پاؤں مارتا ہے تو اس پر بھی اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
تشریح:
1۔روایت کے آخر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ایک دوسری حدیث میں مرفوعاً بھی بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’گھوڑا اس شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھا اور اس کی رسی چراگاہ یا باغ میں ددرازکردی ،وہ چراگاہ یا باغ میں جس قدرچارہ کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔اگروہ رسی کوتوڑڈالے اور ایک یا دو بلندیاں اور ٹیلے دوڑ جائے تواس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانات بھی اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے،حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ اس قسم کا گھوڑا ثواب کا ذریعہ ہے۔"(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث 2860) 2۔مقصد یہ ہے کہ مجاہد جب جہاد کے لیے نکلتا ہے تو پھر دن رات،سوتے جاگتے جو کام بھی وہ کرے گا اسے ثواب ملے گا،خواہ وہ خود کرے یا اس کا نوکر ومزدور یا اس کا کوئی جانور کرے۔یہ فضیلت صرف عمل جہاد کی ہے باقی طاعات میں نہیں کیونکہ نمازی اور روزےدار کو اس وقت تک اجر ملے گا جب تک وہ نماز یا روزے میں مصروف ہے جبکہ مجاہد کے لیے چوبیس گھنٹے ثواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
جہاد کے معنی اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اور سِيَر كے مطلب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدين رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔واضح رہے کہ جہاد کی دوقسمیں ہیں"اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔اقدامی جہاد:غلبہ دین کفر وشرک کے خاتمے،سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزادینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنتگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کیا جاتاہے۔دفاعی جہاد:اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیاجاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں۔البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں،تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےنزدیک حدود اللہ سے مراد اللہ کی طاعات ہیں۔ان کادائرہ بہت وسیع ہے جو انسان کی پوری زندگی کو محیط ہے،یعنی اللہ تعالیٰ نے عقائد وعبادات ،اخلاق ومعاشرت ،تہذیب وتمدن،تجارت ومعیشت ،سیاست ورریاست اور صلح و جنگ کے معاملات میں جوحدیں مقرر کررکھیں ہیں وہ ان سے آگے نہیں بڑھتے۔ظاہر ہے کہ اللہ کی اطاعت کرنے والا ہی ان مذکورہ صفات والا ہوسکتاہے اور اس کے اوامر کو پورا کرسکتا ہے اور نواہی سے بچ سکتا ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” بے شک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کے مال اس بدلے میں خرید لئے ہیں کہ انہیں جنت ملے گی‘ وہ مسلمان اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور اس طرح ( محارب کفار کو ) یہ مارتے ہیں اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ( کہ مسلمانوں کو ان کی قربانیوں کے نتیجے میں جنت ملے گی ) سچاہے‘ تورات میں‘ انجیل میںاور قرآن میں اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کا پورا کرنے والا کو ن ہو سکتا ہے ؟ پس خوش ہو جاؤ تم اپنے اس سودا کی وجہ سے جو تم نے اس کے ساتھ کیا ہے‘ آخر آیت وبشر المومنین تک ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ کی حدوں سے مراد اس کے احکام کی اطاعت ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کرنے لگا: آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو جہاد کے برابر ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں کوئی ایسا عمل نہیں پانا جو جہاد کے برابر ہو۔‘‘ آپ نے مزید فرمایا:’’ کیا تجھ میں طاقت ہے کہ جب مجاہد جہاد کے لیے نکلے تو تو اپنی مسجد میں داخل ہوجائے، وہاں اللہ کی عبادت کرتا رہے اور ذرہ بھر سستی نہ کرے اور تو مسلسل روزے رکھتا رہے کوئی روزہ ترک نہ کرے؟‘‘ اس شخص نے عرض کیا: اس عمل کی کون طاقت رکھتا ہے؟ حضرت ابوہریرۃ ؓنے فرمایا: مجاہد کا گھوڑا جب رسی میں بندھا ہوا زمین پر پاؤں مارتا ہے تو اس پر بھی اس کے لیے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
1۔روایت کے آخر میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ایک دوسری حدیث میں مرفوعاً بھی بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’گھوڑا اس شخص کے لیے ثواب کا ذریعہ ہے جس نے اسے اللہ کے راستے میں باندھا اور اس کی رسی چراگاہ یا باغ میں ددرازکردی ،وہ چراگاہ یا باغ میں جس قدرچارہ کھائے گا وہ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی۔اگروہ رسی کوتوڑڈالے اور ایک یا دو بلندیاں اور ٹیلے دوڑ جائے تواس کی لید اور اس کے قدموں کے نشانات بھی اس شخص کے لیے نیکیاں ہوں گی۔اگر وہ نہر کے پاس سے گزرے اور اس سے پانی پیے،حالانکہ مالک کا اسے پانی پلانے کا ارادہ نہیں تھا تو یہ بھی اس کی نیکیاں ہوں گی۔ اس قسم کا گھوڑا ثواب کا ذریعہ ہے۔"(صحیح البخاري، الجھاد، حدیث 2860) 2۔مقصد یہ ہے کہ مجاہد جب جہاد کے لیے نکلتا ہے تو پھر دن رات،سوتے جاگتے جو کام بھی وہ کرے گا اسے ثواب ملے گا،خواہ وہ خود کرے یا اس کا نوکر ومزدور یا اس کا کوئی جانور کرے۔یہ فضیلت صرف عمل جہاد کی ہے باقی طاعات میں نہیں کیونکہ نمازی اور روزےدار کو اس وقت تک اجر ملے گا جب تک وہ نماز یا روزے میں مصروف ہے جبکہ مجاہد کے لیے چوبیس گھنٹے ثواب کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ "اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ تورات، انجیل اور قرآن سب کتابوں میں اللہ کے ذمے یہ پختہ وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو وفا کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے؟لہٰذا تم نے جو سودا کیا ہے اس پر خوشیاں مناؤ(اور یہی بہت بڑی کا میابی ہے۔ وہ توبہ کرنے والے، عبادت گزار، حمد کرنے والے، روزہ دار، رکوع کرنے والے، سجدہ گزار، بھلےکاموں کا چرچا کرنے والے، برے کاموں سے روکنے والے اور حدود اللہ کی خفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ )ایسے اہل کو آپ خوشخبری سنادیں۔ "حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ الحدود سے مراد اللہ تعالیٰ کی طاعات ہیں۔
فائدہ:جہاد کے معنی اللہ تعالیٰ کے دین کی سر بلندی کے لیے طاقت صرف کرنا ہیں اورسِيَرکے معنی طریقہ ہیں۔ یہاںسِيَرکا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے وہ حالات ہیں جو کفار سے جنگ کرتے ہوئے رونما ہوئے۔ واضح رہے کہ جہاد کی دو اقسام ہیں۔ اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد۔ اقدامی جہاد، غلبہ دین کفرو شرک کے خاتمے، سرحدوں کی حفاظت اور عہد شکنی کی سزا دینے کے لیے مسلمانوں کی طرف سے جو جنگ لڑی جائے اسے اقدامی جہاد کہا جا تا ہے۔ دفاعی جہاد، اسلامی ریاست اور اہل اسلام کا دفاع کرتے ہوئے جو مدافعانہ جنگ لڑی جائے اسے دفاعی جہاد کا نام دیا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، البتہ غزوہ خندق کے بعد اقدامی جہاد کی بھی متعدد مثالیں ملتی ہیں، تاہم اقدامی قتال مسلمانوں کے اجتماعی امور سے متعلق ہے جسے آج کل روشن خیال سیکولر طبقہ تسلیم نہیں کرتا۔ ان کے نزدیک دین کا اجتماعیات میں کوئی دخل نہیں ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا‘ کہا ہم کو عفان بن مسلم نے خبر دی‘ کہا ہم سے ہمام نے‘ کہا ہم سے محمد بن حجادہ نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھے ابو حصین نے خبر دی ‘ ان سے ذکو ان نے بیان کیا اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک صاحب (نا م نا معلوم) رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجئے جو ثواب میں جہا د کے برابر ہو۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ایسا کوئی عمل میں نہیں پاتا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کیا تم اتنا کرسکتے ہو کہ جب مجاہد (جہاد کے لئے) نکلے تو تم اپنی مسجد میں آ کر برابر نماز پڑھنی شروع کردو اور (نماز پڑھتے رہو اور درمیان میں) کوئی سستی اور کاہلی تمہیں محسوس نہ ہو، اسی طرح روزے رکھنے لگو اور کوئی دن بغير روزے کے نہ گزرے۔ ان صاحب نے عرض کیا بھلا ایسا کون کرسکتا ہے ؟ ابوہریرہ ؓ نے فرمایاکہ مجاہد کا گھوڑا جب رسی میں بندھا ہوا زمین (پر پاؤں) مارتا ہے تو اس پر بھی اس کے لئے نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): A man came to Allah's Apostle (ﷺ) and said, "Instruct me as to such a deed as equals Jihad (in reward)." He replied, "I do not find such a deed." Then he added, "Can you, while the Muslim fighter is in the battle-field, enter your mosque to perform prayers without cease and fast and never break your fast?" The man said, "But who can do that?" Abu- Hurairah added, "The Mujahid (i.e. Muslim fighter) is rewarded even for the footsteps of his horse while it wanders bout (for grazing) tied in a long rope."