باب: امامت کرانے کا سب سے زیادہ حقدار وہ ہے جو علم اور (عملی طور پر بھی) فضیلت والا ہو۔
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: The religious learned men are entitled to precedence in leading the Salat (prayer))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
673.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی، اس دوران میں آپ سے نماز کا کہا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: ابوبکر صدیق ؓ بہت نرم دل آدمی ہیں، جب قراءت کریں گے تو شدت غم سے رونے لگیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’انہی سے کہو، وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے پھر وہی بات دہرائی۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ان سے کہو، وہ نماز پڑھائیں، تم تو بالکل یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔‘‘ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی، زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے۔ اور عقیل اور معمر نے بھی زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا کہ تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ شارحین نے اس جملے کے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں:٭جس طرح حضرت یوسف ؑ سے مصر کی عورتیں ان کی مرضی کے خلاف گفتگو کرتی تھیں تم نے بھی وہی کردار ادا کیا ہے٭ حضرت یوسف ؑ اور خیال میں تھے اور خواتین مصر دوسرے خیال میں تھیں، اسی طرح تمھارے اور میرے خیالات میں ہم آہنگی اور یکسانیت نہیں۔٭یوسف ؑ کے وقت کی عورتیں اپنی ہی بات چلایا کرتیں تھیں تم نے بھی وہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے کہا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کرے کیونکہ میں اس بار گراں کا متحمل نہیں ہوں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حضرت بلال آئے اور انھیں جماعت کے لیے کہا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عمر!آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ آپ ہی اس منصب کے حق دار ہیں۔ (فتح الباري:199/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
673
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
682
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
682
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
682
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی، اس دوران میں آپ سے نماز کا کہا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ابوبکر سے کہو، وہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا: ابوبکر صدیق ؓ بہت نرم دل آدمی ہیں، جب قراءت کریں گے تو شدت غم سے رونے لگیں گے۔ آپ نے فرمایا: ’’انہی سے کہو، وہ نماز پڑھائیں۔‘‘ حضرت عائشہ ؓ نے پھر وہی بات دہرائی۔ اس پر آپ نے فرمایا: ’’ان سے کہو، وہ نماز پڑھائیں، تم تو بالکل یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔‘‘ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی، زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے۔ اور عقیل اور معمر نے بھی زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے بیان کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ اور حضرت حفصہ ؓ سے فرمایا کہ تم تو یوسف ؑ کے ساتھ والی عورتیں معلوم ہوتی ہو۔ شارحین نے اس جملے کے متعدد مفہوم بیان کیے ہیں:٭جس طرح حضرت یوسف ؑ سے مصر کی عورتیں ان کی مرضی کے خلاف گفتگو کرتی تھیں تم نے بھی وہی کردار ادا کیا ہے٭ حضرت یوسف ؑ اور خیال میں تھے اور خواتین مصر دوسرے خیال میں تھیں، اسی طرح تمھارے اور میرے خیالات میں ہم آہنگی اور یکسانیت نہیں۔٭یوسف ؑ کے وقت کی عورتیں اپنی ہی بات چلایا کرتیں تھیں تم نے بھی وہی وتیرہ اپنایا ہوا ہے۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود حضرت ابو بکر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت عائشہ ؓ سے کہا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے اس سلسلے میں گفتگو کرے کیونکہ میں اس بار گراں کا متحمل نہیں ہوں۔ اتنے میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حضرت بلال آئے اور انھیں جماعت کے لیے کہا تو انھوں نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا کہ اے عمر!آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ حضرت عمر ؓ نے جواب دیا کہ آپ ہی اس منصب کے حق دار ہیں۔ (فتح الباري:199/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یونس بن یزید ایلی نے ابن شہاب سے بیان کیا، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ سے، انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمر ؓ سے خبر دی کہ جب رسول کریم ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آپ سے نماز کے لیے کہا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں۔ جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ دوبارہ انہوں نے پھر وہی عذر دہرایا۔ آپ نے پھر فرمایا کہ ان سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ تم تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ اس حدیث کی متابعت محمد بن ولید زبیدی اور زہری کے بھتیجے اور اسحاق بن یحییٰ کلبی نے زہری سے کی ہے اور عقیل اور معمر نے زہری سے، انہوں نے حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے، انہوں نے نبی کریم ﷺ سے۔
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہی ہے کہ امامت اس شحص کو کرانی چاہئے جو علم میں ممتاز ہو۔ یہ ایک اہم ترین منصب ہے جو ہر کس و ناکس کے لیے مناسب نہیں۔ حضرت صدیقہ کا خیال تھا کہ والد محترم حضور کی جگہ کھڑے ہوں اور حضور کی وفات ہو جائے تو لوگ کیا کیا خیالات پیدا کریں گے۔ اس لیے بار بار وہ عذر پیش کرتی رہیں مگر اللہ پاک کو یہ منظور تھا کہ آنحضرت ﷺ کے بعد اولین طور پر اس گدی کے مالک حضرت صدیق اکبر ؓ ہی ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ ہی کا تقرر عمل میں آیا۔ زبیدی کی روایت کو طبرانی نے اور زہری کے بھتیجے کی روایت کو ابن عدی نے اور اسحاق کی روایت کو ابوبکر بن شاذان نے وصل کیا۔ عقیل اور معمر نے اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا کیوں کہ حمزہ بن عبداللہ نے آنحضرت ﷺ کو نہیں پایا۔ عقیل کی روایت کو ابن سعد اور ابولیلیٰ نے وصل کیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Hamza bin ' Abdullah (RA): My father said, "When Allah's Apostle (ﷺ) became seriously ill, he was told about the prayer. He said, 'Tell Abu Bakr (RA) to lead the people in the prayer.' 'Aisha (RA) said, ' Abu Bakr (RA) is a soft-hearted man and he would be over-powered by his weeping if he recited the Qur'an.' He said to them, 'Tell him (Abu Bakr) to lead the prayer. The same reply was given to him. He said again, 'Tell him to lead the prayer. You (women) are the companions of Joseph."