باب : ایام بیض کے روزے یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں کے روزے رکھنا
)
Sahi-Bukhari:
Fasting
(Chapter: To fast the 13th, 14th and 15th of the lunar months)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1981.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے میں تین دن کے ر وزے رکھنا، اشراق پڑھنا اور نیند سے پہلے وتر پڑھنا۔
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ پیش کردہ روایت کی وضاحت کے لیے ہے کیونکہ حدیث میں تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کی صراحت نہیں ہے، گویا امام بخاری نے روایت کے اطلاق کو مقید کیا ہے۔ اور اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں چاند پوری طرح روشن ہوتا ہے، یعنی بدر اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا دن۔ (2) امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ سے فرمایا: ’’اے ابوذر! جب تو ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھنا چاہے تو تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزہ رکھا کر۔‘‘ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:761) حضرت جریر بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنا زمانہ بھر کے روزوں کے برابر ہے اور وہ ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزے رکھنا ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الصوم، حدیث:2422) (3) عام طور پر سورج گرہن بھی انہی تاریخوں کو ہوتا ہے۔ جب اس طرح اتفاق ہو جائے تو گرہن کے موقع پر نماز، صدقہ اور روزہ جیسی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جبکہ باقی تاریخوں میں روزہ رکھنے سے یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:288/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1924
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1981
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1981
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1981
تمہید کتاب
عربی زبان میں روزے کے لیے صوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ لغوی طور پر اس کے معنی رک جانا ہیں، یعنی کھانے پینے، بولنے، جماع کرنے یا چلنے سے رک جانا۔ شرعی تعریف یہ ہے کہ مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص ایام میں مخصوص اشیاء سے مخصوص وقت میں رک جانا کا نام صوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں عبادت کی نیت سے طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانے، پینے اور ازدواجی تعلقات سے باز رہنے کا نام روزہ ہے۔دراصل انسان کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت اور حیوانیت سے مرکب بنایا ہے۔ اس کی طبیعت میں وہ سارے مادی اور سفلی تقاضے بھی ہیں جو دوسرے حیوانوں میں ہوتے ہیں اور اس کی فطرت میں روحانیت کا وہ نورانی جوہر بھی ہے جو فرشتوں کے لیے خاص غذا اور دولت ہے۔ انسان کی سعادت کا دارومدار اسی پر ہے کہ اس کا روحانی عنصر، حیوانی عنصر پر غالب رہے اور اسے حدود کا پابند رکھے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر عائد کی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا حیوانی پہلو اس کے روحانی پہلو کا فرمانبردار اور اطاعت شعار ہو جائے اور اس کے مقابلے میں سرکشی اور بغاوت نہ کرے۔ روزے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے انسان کی حیوانیت کو کنٹرول کیا جائے اور اسے شرعی احکام کی پابندی، نیز ایمانی اور روحانی تقاضوں کی فرمانبرداری کا عادی بنایا جائے۔ روزہ چونکہ انسان کی حیوانی قوت کو اس کی روحانی قوت کے تابع رکھنے اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں خواہشات نفس اور تقاضائے شہوت کو دبانے کی عادت ڈالنے کا خاص ذریعہ ہے، اس لیے سابقہ امتوں کو بھی اس کا حکم دیا گیا تھا۔ اگرچہ روزوں کی مدت اور دوسرے تفصیلی احکام میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا، تاہم مقصد میں یکسانیت ضرور تھی جسے اللہ تعالیٰ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے (لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ) "تاکہ تم تقویٰ شعار بن جاؤ۔" (البقرۃ183:2)اس امت کے لیے سال میں ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے اور روزے کا وقت طلوع سحر سے غروب آفتاب تک رکھا گیا۔ بلاشبہ یہ مدت اور یہ وقت مذکورہ بالا مقصد کے حصول کے لیے نہایت معتدل اور مناسب ہے کیونکہ اس سے کم مدت میں نفس کی تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ اور اگر وقت اس سے زیادہ رکھا جاتا تو اکثریت کے لیے ناقابل برداشت ہوتا۔ بہرحال طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کا وقت اور سال میں ایک مہینے کی مدت عام انسان کے حالات و ظروف کے اعتبار سے مقصد تربیت کے لیے بالکل مناسب اور متعدل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے تحت ایک سو ستاون احادیث ذکر کیں ہیں، پھر ان احادیث پر ستر کے قریب چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے روزے کے متعلق متعدد احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم چند ایک کا بطور نمونہ ذکر کرتے ہیں۔وجوب روزہ، فضیلت روزہ، ماہ رمضان میں سخاوت کرنا، روزے کی ابتدا اور انتہائے سحری کے مسائل، اس کا وقت، بحالت جنابت روزہ رکھنا، دن کے وقت روزے کی نیت کرنا، دوران روزہ بیوی سے بوس و کنار کرنا، بحالت روزہ غسل کرنا، بھول کر کھا پی لینا، دوران روزہ تازہ یا خشک مسواک کرنا، بحالت روزہ بیوی سے جماع اور اس کا کفارہ، روزے کی حالت میں سنگی لگوانا یا قے کرنا، دوران سفر میں روزے رکھنا، روزے کی قضا کا وقت، حائضہ عورت کے لیے روزے کے احکام، افطاری کے مسائل، افطاری کے بعد اگر سورج نظر آ جائے، وصال کی شرعی حیثیت، نفلی روزے اور اسوۂ نبوی۔امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ مسائل اور دیگر احکام براہ راست احادیث سے اخذ کیے ہیں، جن سے امام صاحب کی بصیرت و فراست کا پتہ چلتا ہے۔ بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک سو ستاون احادیث بیان کی ہیں جن میں چھتیس معلق اور باقی موصول ہیں، ان میں اڑسٹھ مکرر اور خالص نواسی احادیث ہیں۔ پچیس احادیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ احادیث کے علاوہ تقریبا ساٹھ آثار بھی بیان کیے ہیں جو متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی ہیں۔ ان میں اکثر معلق اور چند موصول ہیں۔واضح رہے کہ اس مہینے کو رمضان اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کے معنی جلنے کے ہیں اور جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے اس وقت سخت گرمی تھی، اس لیے یہ مہینہ رمضان سے موسوم ہوا، نیز اس ماہ میں روزہ رکھنے والوں کے گناہ جل جاتے ہیں۔ عورت، مریض اور مسافر کے لیے کچھ رعایت بھی ہے جس کا آئندہ تفصیل سے ذکر ہو گا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ماہ رمضان کے روزوں کا بیان ارکان اسلام کے آخر میں کیا ہے، اس کے متعلق علامہ عینی نے لکھا ہے کہ قبل ازیں کتاب الزکاۃ کے بعد کتاب الحج کو ذکر کیا کیونکہ ان دونوں میں مال خرچ ہوتا ہے، اب روزے کے احکام کے لیے اور کوئی محل نہیں تھا، اس لیے ان کے احکام و مسائل کو آخر میں بیان کیا ہے۔ (عمدۃالقاری:8/3) قارئین کرام سے استدعا ہے کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قائم کردہ عناوین اور پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کرتے وقت ہماری ان گزارشات کو ضرور پیش نظر رکھیں، اس سے حضرت امام کی فقہی بصیرت اور قوت استنباط اور دقت نظر کا اندازہ ہو گا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور قیامت کے دن ہمیں زمرۂ محدثین میں اٹھائے۔ آمین یا رب العالمین
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے میں تین دن کے ر وزے رکھنا، اشراق پڑھنا اور نیند سے پہلے وتر پڑھنا۔
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ پیش کردہ روایت کی وضاحت کے لیے ہے کیونکہ حدیث میں تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کی صراحت نہیں ہے، گویا امام بخاری نے روایت کے اطلاق کو مقید کیا ہے۔ اور اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں چاند پوری طرح روشن ہوتا ہے، یعنی بدر اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا دن۔ (2) امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ سے فرمایا: ’’اے ابوذر! جب تو ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھنا چاہے تو تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزہ رکھا کر۔‘‘ (جامع الترمذي، الصوم، حدیث:761) حضرت جریر بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ’’ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنا زمانہ بھر کے روزوں کے برابر ہے اور وہ ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزے رکھنا ہے۔‘‘ (سنن النسائي، الصوم، حدیث:2422) (3) عام طور پر سورج گرہن بھی انہی تاریخوں کو ہوتا ہے۔ جب اس طرح اتفاق ہو جائے تو گرہن کے موقع پر نماز، صدقہ اور روزہ جیسی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جبکہ باقی تاریخوں میں روزہ رکھنے سے یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی۔ (فتح الباري:288/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ میرے خلیل ﷺ نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں۔
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا ذکر ہے۔ ایام بیض کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اور اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے امام احمد اور نسائی اور ابن حبان نے موسیٰ بن طلحہ سے نکالا۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے۔ اس میں یوں ہے کہ آپ نے ایک اعرابی سے فرمایا جو بھنا ہوا خرگوش لایا تھا۔ تو بھی کھا۔ اس نے کہا میں ہر مہینے تین دن روزے رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر تو یہ روزے رکھتا ہے تو سفید دنوں میں یعنی ایام بیض میں رکھا کر۔ نسائی کی ایک روایت میں عبداللہ بن عمرو ؓ سے یوں ہے ہر دس دن میں ایک روزہ رکھا کر اور ترمذی نے نکالا کہ آپ ہفتہ اور اتوار اور پیر کو روزہ رکھا کرتے اور ایک روایت میں منگل، بدھ، جمعرات کا ذکر ہے غرض آپ کا نفلی روزہ ہمیشہ کے لیے کسی خاص دن میں معین نہ تھا۔ مگر ایام بیض کے روزے مسنون ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): My friend (the Prophet) advised me to observe three things: (1) to fast three days a month; (2) to pray two Rakat of Duha prayer (fore-noon prayer); and (3) to pray Witr before sleeping.