Sahi-Bukhari:
Prayers (Salat)
(Chapter: The Sutra of the Imam is also a Sutra for those who are behind him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
494.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینے سے) باہر تشریف لے جائے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے۔ جب اس کی تعمیل کر دی جاتی تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ دوران سفر میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے بھی اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت اپنا لی ہے۔
تشریح:
1۔ اس روایت سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عیدین کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو نیزہ وغیرہ آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے سامنے نصب کردیاجاتا، پھر آپ نماز پڑھاتے، اسی سترے کو مقتدیوں کے لیے بھی کافی خیال کیاجاتا تھا، کیونکہ مقتدیوں کے لیے الگ سترے کا ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں، نیز یہ بھی تفصیل نہیں کہ نیزے کو صرف امام کے لیے سترہ مانا جائے، پھر امام کو قوم کے حق میں سترہ قرار دیا جائے۔ 2۔ سعد القرظ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا جسے آپ نے اس طرح کی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو غزوہ احد میں ایک مشرک سے ہاتھ لگا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے ان سے لے لیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت زبیر بن عوام ؓ والا نیزہ استعمال ہوتا تھا۔ پھر نجاشی کا ہبہ کیا ہوا نیزہ استعمال ہونے لگا۔ (فتح الباري:741/1) 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نیزہ وغیرہ کے ساتھ رکھنے میں مختلف مصلحتیں تھیں جن میں ایک مصلحت یہ تھی کہ اسے کھلے میدان میں نماز کے وقت بطور سترہ استعمال کیا جاتا تھا، نیزبوقت ضرورت دشمن سے بچاؤ کے بھی کام آسکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
489
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
494
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
494
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
494
تمہید کتاب
(صلاۃ) کے لغوی معنی دعاواستغفار ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: (خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ) (التوبۃ 103/9۔)"آپ ان کے اموال سے صدقہ لیجئے،انھیں پاک کیجئے اور اس کے ذریعے سے ان کا تزکیہ کیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے۔"جب صلاۃ کی نسبت اللہ کی طرف ہوتو اس کے معنی رحمت اور خیروبرکت ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:(هُوَ الَّذِي يُصَلِّي عَلَيْكُمْ) (الاحزاب 43/33۔) "وہی ہے(اللہ) جو تم پر اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔"شریعت میں صلاۃ ایک مخصوص عبادت کانام ہے جس کا آغاز تکبیر تحریمہ سے اور اختتام تسلیم سے ہوتا ہے ۔چونکہ یہ عبادت بندے کی طرف سے دعاؤں پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی پر اللہ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے اس لیے اس عبادت کو سلاۃ سے موسوم کیاجاتا ہے۔دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے بندے کو اس عبادت کا مکلف ہوناپڑتا ہے اور قیامت کے دن بھی حقوق اللہ کی بابت سب سے پہلے اس کے متعلق ہی سوال ہوگا۔صلاۃ ،اللہ سے مناجات کا بہت بڑا ذریعہ ہے ،لہذا عبادات میں اسے مقدم رکھا جاتا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شرائط صلاۃ،یعنی طہارت صغریٰ،طہارت کبریٰ،پھر طہارت مائیہ(وضو) اور طہارت ترابیہ(مسح) سے فراغت کے بعد مشروط،جو کہ اصل مقصود ہے،اسے بیان فرمایا ہے۔طہارت ،نماز کے لیے شرط ہے اور وسیلے میں چونکہ مشروط پر شرط اور مقصود پروسیلہ مقدم ہوتا ہے اس لیے شرط اور وسیلے کے بعدمشروط اورمقصود کو بیان کیاجارہا ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب ا لصلاۃ کاآغاز اس کی فرضیت کے بیان سے کیا ہے،یعنی فرضیت صلاۃ کہاں ،کب اور کیسے ہوئی اور کس شان سے ہوئی؟اس کے بعد آداب صلاۃ بیان کیے ہیں جو چار حصوں میں مشتمل ہیں:ستر العورۃ،استقبال قبلہ،احکام مساجد اور مسائل سترہ،وغیرہ۔نماز کی فرضیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بطورمہمان اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلایا۔چونکہ میزبان کی طرف سے اپنے معزز مہمان کو کچھ نہ کچھ پیش کیا جاتا ہے،اسی طرح شب معراج میں آپ کو صلاۃ کا تحفہ پیش کیا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے جب بھی بندہ اپنے آقا کے حضورحاضری دینا چاہے،دےسکے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس مناسبت سے حدیث معراج کو بیان فرمایا ،پھر آداب صلاۃ کے سلسلے میں سرفہرست سترعورۃ کا مسئلہ ہے کیونکہ برہنگی تو ویسے ہی اللہ کو پسند نہیں چہ جائیکہ راز ونیاز کے وقت اسے اختیار کیاجائے،اس لیے جسم کے قابل سترحصے اور ان کی حدود وقیود کو بیان کیا۔قابل سترحصے کو ڈھانپنے کے لیے نہ تو کپڑوں کی تعداد درکارہوتی ہے اور نہ کسی خاص نوعیت کے کپڑوں ہی کی ضرورت ،اس مناسبت سے نماز میں مرد اورعورت کے لیے لباس کی اہمیت اور اس سے متعلقہ ہدایات ذکر کیں،پھر متعلقات لباس جوتے اورموزے پہن کر نماز ادا کرنا،ان کے متعلق شرعی ضابطہ ذکر کیا،پھر اس بات کا ذکر کیا کہ نماز کے لیے خاص جگہ کا انتخاب ضروری نہیں کہ وہ سطح زمین ہو بلکہ چھت ،منبر،چٹائی ،تختہ،بوریا،بستر اور دری یا قالین وغیرہ پر ادا کی جاسکتی ہے۔نماز کی ایک اہم شرط استقبال قبلہ ہے۔اس کی اہمیت وفضیلت ،عین قبلہ،جہت قبلہ ،تحری قبلہ کے مسائل،پھر اس مناسبت سے یہ وضاحت کہ اگر نمازی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا ہے تو قبلے کی جانب اس کے سامنے آگ یا جلتاہوا تنور ہونانماز کے منافی نہیں۔چونکہ استقبال قبلہ جگہ کا تقاضا کرتا ہے اس لحاظ سے آداب مساجد کا ذکر فرمایا اس میں فضیلت بنائے مسجد،اہمیت مسجد ،حفاظت مسجد ،نظافت مسجد،آداب دخول وخروج مسجد،مسجد میں سونا،فیصلے کرنا،اس کے ستونوں کے ساتھ قیدی باندھنا اور مسجد سے متعلقہ مکروہات ومباحات کی تفصیل ،کون سی جگہ نماز کے قابل نہیں اور نماز کہاں ادا کی جائے،اسے بیان فرمایا۔پھر اسے مناسبت سے مکے اور مدینے کے درمیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں جہاں جہاں نماز پڑھی تھی،وہاں تعمیر کردہ تاریخی مساجد کا تذکرہ کیا ہے۔آخر میں سترے کے احکام بیان کیے ہیں،یعنی سترہ امام کی حیثیت ،سترے کی مقدار،نمازی اور سترے کے درمیان فاصلہ ،کون کون سی چیز کو سترہ بنایا جاسکتا ہے،مسجد حرام میں سترہ ستونوں کے درمیان اور ان کے پیچھے نماز کی ادائیگی اور اس کی شرعی حیثیت ،نمازی کے آگے سے گزرنا اور اس کی سنگینی۔ابواب سترہ میں اس بات کو خاص طور پر بیان کیاگیا ہے کہ اگرعورت نماز میں سترے کی جگہ ہوتو اس میں کوئی مضائقہ نہیں،پھر اس مناسبت سے چند ابواب عورت کے متعلق منعقد کیے تاکہ نماز کے متعلق عورت کے معاملے میں تشدد سے کام نہ لیاجائے جیسا کہ بعض حضرات اس کے فاعل وقائل ہیں۔دوران نماز میں اسے چھونے سے اگرنماز ختم نہیں ہوتی تو اسے سترہ بنانے میں کیا حرج ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صلاۃسے متعلقہ ڈھیروں مسائل بیان کرنے کے لیے ایک سو سےزیادہ چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے آپ کی دقت نظر اور جلالت قدر کا اندازہ ہوتا ہے۔ان مسائل کو ثابت کرنے کے لیے 171 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 51مکرر ہیں۔اس کے معلقات 33 اور موقوف آثار کی تعداد 34 ہے۔اس طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں متعدد حقائق ومعارف سے پردہ اٹھایا ہے۔ہماری ان معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے کتاب الصلاۃ کا مطالعہ کریں اور اپنے قلب وذہن کو قرآن وحدیث سے جلا بخشیں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کاحامی وناصر ہو اور ہمیں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق دے۔آمین۔
تراجم کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا ایک اصول ہے کہ بعض اوقات اگر کوئی روایت دیگر کتب میں مروی ہو اور اس کا مضمون صحیح ہو تو اسے عنوان میں ذکر کر دیتے ہیں اور جن روایات کے مضامین صحیح نہ ہوں ان کی تردید فرماتے ہیں۔مذکورہ بالا عنوان بھی اسی قبیل سے ہے۔اس کے الفاظ ایک مرفوع روایت کے الفاظ ہیں جسے امام طبرانی نے(المعجم الاوسط 1/144حدیث 465) میں روایت کیا ہے لیکن سوید راوی کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے موقوف طور پر مذکورہ الفاظ مروی ہیں جسے امام عبدالرزاق نے اپنی مصنف (2/18)میں بیان کیا ہے بہر حال اس ضعیف روایت کا مضمون صحیح تھا اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں روایت پیش کی ہیں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ دوران جماعت میں ہر شخص کو الگ الگ سترہ قائم کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ امام کے لیے جو سترہ قائم کیا گیا ہے وہی مقتدیوں کے لیے کافی ہوگا البتہ مالکی حضرات کچھ تفصیل کرتے ہیں کہ مقتدیوں کا سترہ خود امام ہے اور امام کا سترہ وہ چیز ہے جو امام کے سامنے قائم کی جائے۔یہ فرق اس صورت میں واضح ہو گا کہ اگر نماز سترے کے بغیر ہو رہی ہو اور کوئی امام کے آگے سے گزر جائے تو جو لوگ امام کے سترے ہی کو مقتدیوں کا سترہ قراردیتے ہیں ان کے نزدیک امام اور مقتدیوں کی نماز متاثر ہوگی اورجو لوگ خود امام کو مقتدی حضرات کے لیے سترہ کہتے ہیں ان کے نزدیک امام کے آگے سے گزرنا خود امام کے لیے ضرررساں ہوگا۔مقتدی حضرات کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوگا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک امام کا سترہ صرف امام ہی کا سترہ نہیں بلکہ مقتدیوں کا بھی سترہ ہے۔( فتح الباری:1/740۔)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینے سے) باہر تشریف لے جائے تو چھوٹا نیزہ گاڑنے کا حکم دیتے۔ جب اس کی تعمیل کر دی جاتی تو آپ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوتے تھے۔ دوران سفر میں بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے بھی اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت اپنا لی ہے۔
حدیث حاشیہ:
1۔ اس روایت سے امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب عیدین کی نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو نیزہ وغیرہ آپ کے ساتھ ہوتا اور آپ کے سامنے نصب کردیاجاتا، پھر آپ نماز پڑھاتے، اسی سترے کو مقتدیوں کے لیے بھی کافی خیال کیاجاتا تھا، کیونکہ مقتدیوں کے لیے الگ سترے کا ہونا کسی روایت سے ثابت نہیں، نیز یہ بھی تفصیل نہیں کہ نیزے کو صرف امام کے لیے سترہ مانا جائے، پھر امام کو قوم کے حق میں سترہ قرار دیا جائے۔ 2۔ سعد القرظ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت نجاشی نے رسول اللہ ﷺ کو بطور ہدیہ بھیجا تھا جسے آپ نے اس طرح کی ضروریات کے لیے استعمال فرمایا جبکہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نیزہ حضرت زبیر بن عوام ؓ کو غزوہ احد میں ایک مشرک سے ہاتھ لگا تھا جسے رسول اللہ ﷺ نے ان سے لے لیا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے ان دونوں روایات میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ پہلے حضرت زبیر بن عوام ؓ والا نیزہ استعمال ہوتا تھا۔ پھر نجاشی کا ہبہ کیا ہوا نیزہ استعمال ہونے لگا۔ (فتح الباري:741/1) 3۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں نیزہ وغیرہ کے ساتھ رکھنے میں مختلف مصلحتیں تھیں جن میں ایک مصلحت یہ تھی کہ اسے کھلے میدان میں نماز کے وقت بطور سترہ استعمال کیا جاتا تھا، نیزبوقت ضرورت دشمن سے بچاؤ کے بھی کام آسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ جب عید کے دن (مدینہ سے) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ (برچھا) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ ﷺ اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ ﷺ سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔ (مسلمانوں کے) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): Whenever Allah's Apostle (ﷺ) came out on 'Id day, he used to order that a Harba (a short spear) to be planted in front of him (as a Sutra for his prayer) and then he used to pray facing it with the people behind him and used to do the same while on a journey. After the Prophet, this practice was adopted by the Muslim rulers (who followed his traditions).