باب:اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(درسورۂ مائدہ) کی تفیسر” بلا شبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے گندے کا م ہیں شیطان کے کاموں سے پس تم ان سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: "Intoxicants, gambling, Al-Ansab and Al-Azlam are an abomination of Shaitan's handiwork ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5575.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دنیا میں شراب پی پھر اس سے توبہ نہیں کی تو آخرت میں وہ اس سے محروم رہے گا۔“
تشریح:
(1) شرابی آدمی جنت سے محروم رہے گا بلکہ ایک دوسری حدیث میں اس کی سنگینی ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نشہ کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ عہد ہے جس کا پورا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ اسے وہ آخرت میں طينة الخبال ضرور پلائے گا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! طينة الخبال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا پسینہ۔‘‘ یا فرمایا: ’’دوزخیوں کے زخموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5217 (2002)) (2) بہرحال شراب کی حرمت کے بعد شراب نوشی انتہائی سنگین جرم ہے کہ شراب کے رسیا نے شراب نوشی سے توبہ نہ کی تو اسے جنت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صرف شراب پینے پر یہ سزا ہے، خواہ اسے نشہ آئے یا نہ آئے کیونکہ شراب پینے پر اس سزا کو مرتب کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 43/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5363
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5575
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5575
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5575
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
مشروبات میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حرام مشروبات کو بیان کیا ہے کیونکہ وہ حلال مشروبات کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں، جب انسان ان سے واقف ہو گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے علاوہ دیگر مشروبات حلال ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیا ہے۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے مکمل ترجمہ حسب ذیل ہے: "اے ایمان والو! شراب، جوا، بت اور فال نکالنے کے تیر یہ سب ناپاک کام، اعمال شیطان میں سے ہیں، لہذا تم (ان سے) بچو تاکہ نجات پاؤ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے بھی روک دے تو کیا تم ان (شیطانی کاموں) سے باز نہیں آؤ گے۔" (المائدۃ: 5/90،91)
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے دنیا میں شراب پی پھر اس سے توبہ نہیں کی تو آخرت میں وہ اس سے محروم رہے گا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) شرابی آدمی جنت سے محروم رہے گا بلکہ ایک دوسری حدیث میں اس کی سنگینی ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نشہ کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کا یہ عہد ہے جس کا پورا کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے کہ اسے وہ آخرت میں طينة الخبال ضرور پلائے گا۔‘‘ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! طينة الخبال کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’دوزخیوں کے جسم سے نکلنے والا پسینہ۔‘‘ یا فرمایا: ’’دوزخیوں کے زخموں سے نکلنے والا لہو اور پیپ۔‘‘ (صحیح مسلم، الأشربة، حدیث: 5217 (2002)) (2) بہرحال شراب کی حرمت کے بعد شراب نوشی انتہائی سنگین جرم ہے کہ شراب کے رسیا نے شراب نوشی سے توبہ نہ کی تو اسے جنت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ صرف شراب پینے پر یہ سزا ہے، خواہ اسے نشہ آئے یا نہ آئے کیونکہ شراب پینے پر اس سزا کو مرتب کیا گیا ہے۔ (فتح الباري: 43/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں شراب پی اور پھر اس نے توبہ نہیں کی تو آخرت میں وہ اس سے محروم رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی جنت میں جانے ہی نہ پائے گا تو وہاں کی شراب اسے کیسے نصیب ہو سکے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever drinks alcoholic drinks in the world and does not repent (before dying), will be deprived of it in the Hereafter."