باب: اپنے ساتھیوں کے سامنے تکیہ لگا کر ٹیکا دے کر بیٹھنا
)
Sahi-Bukhari:
Asking Permission
(Chapter: Whoever sat in a relining posture)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
خباب بن ارت ؓنے کہا کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے عرض کیا آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے ! ( یہ سن کر ) آپ سیدھے ہوبیٹھے۔تشریح : یہ حدیث باب علامات نبوۃ میں گزر چکی ہے۔ قال الملھب یجوز للعالم والمفتی والا مام الاتقیاء فی مجلسہ بحضرۃ الناس اولم یجد ہ فی بعض اعضائہ او ارادتہ یرتفق بذ لک والایکون ذلک فی عامۃ مجلسہ۔ ( فتح ) یعنی عالم اور مفتی اور امام کے لئے لوگوں کے سامنے مجلس میں کسی جسمانی دردیا بیماری کی وجہ سے تکیہ لگا کر بیٹھنا جائز ہے محض راحت کی وجہ سے بھی مگر عام مجلسوں میں ایسا نہ ہونا چاہئے۔
6274.
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ”ہاں اور جھوٹی بات بھی“ یہ بات آپ بار بار دہراتے رہے حتیٰ کہ ہم نے کہا: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔
تشریح:
(1) جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی کی سنگینی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس لیے دہرایا تاکہ اس کی برائی اور قباحت واضح ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹیک لگا کر بیٹھنا دیگر احادیث میں بھی بیان ہوا ہے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث:2771) (2) بعض اطباء نے اسے جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید فرماتے ہوئے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ شرعاً ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:80/11)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6049
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6274
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6274
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6274
تمہید کتاب
لغت کے اعتبار سے ''استئذان'' کے معنی اجازت طلب کرنا ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کے اصطلاحی معنی ان الفاظ میں بیان کیے ہیں: ایسی جگہ آنے کی اجازت لینا کہ اجازت لینے والا اس کا مالک نہیں ہے۔ (فتح الباری:5/11) عرب معاشرے میں یہ عام دستور تھا کہ لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں بلاجھجک داخل ہو جاتے تھے۔ اسلام نے ایسی آزاد آمدورفت پر پابندی لگائی ہے جیسا کہ درج ذیل واقعے سے ظاہر ہوتا ہے:حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت کلدہ بن حنبل رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ، ہرن کا بچہ اور ککڑیاں دے کر بھیجا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی بالائی جانب رہائش رکھے ہوئے تھے۔ وہ آپ کی رہائش گاہ میں اجازت اور سلام کے بغیر جا داخل ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''پیچھے ہٹو اور السلام علیکم کہو۔'' یہ واقعہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ کے مسلمان ہونے کے بعد کا ہے۔ (سنن ابی داود، الادب، حدیث:5176)شریعت نے اس سلسلے میں کچھ فرائض و واجبات کی نشاندہی کی ہے۔ اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے تین قسم کے آداب سے امت مسلمہ کو آگاہ کیا ہے جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:٭ گھروں میں آنے جانے کے آداب: قرآن کریم میں اس کے متعلق ایک ہدایت بیان کی گئی ہے: ''اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ (دوسروں کے) گھروں میں جاؤ تو جب تک تم اہل خانہ سے اجازت نہ لے لو اور انہیں سلام نہ کر لو وہاں داخل نہ ہوا کرو۔'' (النور24: 27) آیت کریمہ میں اپنے گھروں سے مراد صرف وہ گھر ہے جہاں اس کی بیوی رہتی ہو۔ وہاں شوہر ہر وقت بلا جھجک داخل ہو سکتا ہے، لیکن اپنی ماں اور بیٹیوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے استیناس ضروری ہے۔ اس استیناس کے معنی کسی سے مانوس ہونا یا اسے مانوس کرنا یا اس سے اجازت لینا ہیں۔ اس کا مطلب کوئی بھی ایسا کام کرنا ہے جس سے اہل خانہ کو علم ہو جائے کہ دروازے پر فلاں شخص کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔٭ ملاقات کے آداب: دنیا کی تمام مہذب قوموں میں ملاقات کے وقت جذبات کے اظہار اور ایک دوسرے کو مانوس کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج رہا ہے اور آج بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عربوں میں بھی ملاقات کے وقت اسی قسم کے مختلف کلمات کہنے کا رواج تھا لیکن جب اسلام آیا تو ان کلمات کے بجائے اہل ایمان کو السلام علیکم کی تعلیم دی گئی۔ اس جامع دعائیہ کلمے میں چھوٹوں کے لیے شفقت و محبت بھی ہے اور بڑوں کے لیے اس میں اکرام و احترام اور تعظیم بھی ہے۔٭ آداب مجلس: کسی خاص مسئلے پر غوروفکر اور سوچ بچار کرنے کے لیے مخصوص لوگوں کو دعوت دی جاتی ہے۔ اس قسم کی مجالس کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر یہ مجالس کئی قسم کی ہیں: کچھ سرعام ہوتی ہیں اور ہر ایک کو وہاں آنے کی دعوت ہوتی ہے اور کچھ خاص ہوتی ہیں جس میں ہر ایرے غیرے کو آنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ مجالس میں زیر بحث مسائل عام بھی ہو سکتے ہیں اور کچھ مسائل بطور امانت خاص ہوتے ہیں۔ اس قسم کے بیسیوں آداب ہیں جو مجالس سے متعلق ہیں۔ہم آداب زیارت و ملاقات اور آداب مجلس کو معاشرتی آداب کا نام دیتے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ان آداب کی مناسبت سے معانقہ (گلے ملنا)، مصافحہ (ہاتھ ملانا) اور استقبال وغیرہ کے آداب بھی بیان ہوئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان آداب کو بیان کرنے کے لیے پچاسی (85) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ ان میں بارہ (12) احادیث معلق اور باقی تہتر (73) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں، پھر ان میں پینسٹھ (65) احادیث مکرر اور بیس (20) احادیث خالص ہیں۔ ان احادیث میں سے پانچ (5) کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سات آثار بھی بیان کیے ہیں، پھر ان احادیث و آثار پر امام صاحب نے تریپن (53) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو ان کی فقاہت و باریک بینی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ان احادیث کی وضاحت کرتے ہوئے مختلف فوائد سے قارئین کو آگاہ کریں گے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان معاشرتی آداب پر عمل کرنے کی توفیق دے تاکہ ہم معاشرے میں بہترین انسان اور اچھے مسلمان ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین
تمہید باب
لوگوں کے سامنے کسی مجلس میں جسمانی درد یا بیماری یا آرام کی غرض سے ٹیک لگا کر بیٹھنا جائز ہے مگر عام مجالس میں ایسا کرنادرست نہیں۔حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بھی بیان کی ہے۔(صحیح البخاری، المناقب، حدیث:3612)
خباب بن ارت ؓنے کہا کہ میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے عرض کیا آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتے ! ( یہ سن کر ) آپ سیدھے ہوبیٹھے۔تشریح : یہ حدیث باب علامات نبوۃ میں گزر چکی ہے۔ قال الملھب یجوز للعالم والمفتی والا مام الاتقیاء فی مجلسہ بحضرۃ الناس اولم یجد ہ فی بعض اعضائہ او ارادتہ یرتفق بذ لک والایکون ذلک فی عامۃ مجلسہ۔ ( فتح ) یعنی عالم اور مفتی اور امام کے لئے لوگوں کے سامنے مجلس میں کسی جسمانی دردیا بیماری کی وجہ سے تکیہ لگا کر بیٹھنا جائز ہے محض راحت کی وجہ سے بھی مگر عام مجلسوں میں ایسا نہ ہونا چاہئے۔
حدیث ترجمہ:
دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: ”ہاں اور جھوٹی بات بھی“ یہ بات آپ بار بار دہراتے رہے حتیٰ کہ ہم نے کہا: کاش! آپ خاموش ہو جائیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی کی سنگینی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار اس لیے دہرایا تاکہ اس کی برائی اور قباحت واضح ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹیک لگا کر بیٹھنا دیگر احادیث میں بھی بیان ہوا ہے جیسا کہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک تکیے پر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے دیکھا تھا۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث:2771) (2) بعض اطباء نے اسے جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے، اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کی تردید فرماتے ہوئے اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ شرعاً ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري:80/11)
ترجمۃ الباب:
حضرت خباب بن ارتؓ نے کہا کہ میں نبی ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ایک چادر پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے عرض کی: آپ اللہ تعالٰی سے دعا نہیں کرتے؟ تو آپ اٹھ کر بیٹھ گئے
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے بشر بن مفضل نے اسی طرح مثال بیان کیا، (اور یہ بھی بیان کیا کہ) آنحضرت ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے پھر آپ سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا ہاں اور جھوٹی بات بھی۔ آنحضرت ﷺ اسے اتنی مرتبہ باربار دہراتے رہے کہ ہم نے کہا، کاش آپ خاموش ہو جاتے۔
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الادب میں گزرچکی ہے اور دوسری احادیث میں بھی آپ کا تکیہ لگا کر بیٹھنا منقول ہے جیسے ضمام بن ثعلبہ اور سمرہ کی احادیث میں ہے۔ جھوٹی بات کے لئے آپ کا یہ باربار فرمانا اس کی برائی کو واضح کرنے کے لئے تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Bishr (RA) : as above (No. 290) adding: The Prophet (ﷺ) was reclining (leaning) and then he sat up saying, "And I warn you against giving a false statement." And he kept on saying that warning so much so that we said, "Would that he had stopped."