باب: اگر امام لمبی سورۃ شروع کر دے اور کسی کو کام ہو وہ اکیلے نماز پڑھ کر چل دے تو یہ کیسا ہے؟
)
Sahi-Bukhari:
Call to Prayers (Adhaan)
(Chapter: If the Imam prolongs the Salat (prayer) and somebody has an urgent work or need and so he leaves the congregation and offers Salat alone)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
701.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے تھے۔ فراغت کے بعد واپس جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے۔ ایک روز انہوں نے نماز عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ اسے برا بھلا کہتے تھے۔ یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے (حضرت معاذ ؓ سے) تین دفعہ فرمایا: "فتان، فتان، فتان، (فتنہ پرور)۔" یا یہ فرمایا: " فاتنا، فاتنا، فاتنا (فتنہ پرداز)۔" پھر آپ نے انہیں حکم دیا کہ اوساط مفصل کی دو سورتیں پڑھا کرو۔ راوی حدیث عمرو کہتے ہیں کہ میں ان کو بھول گیا ہوں۔
تشریح:
(1) اگر کسی کو امام کی طویل قراءت سے تکلیف ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کی اقتدا چھوڑ کر اکیلا نماز پڑھ لے کیونکہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے امام کی اقتدا ختم کرنے والے کو ملامت نہیں کی بلکہ امام کو تنبیہ فرمائی ہے، لیکن امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک فقہی مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ایک شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے اگر اس نے اقتدا چھوڑ دی تو کیا اس پر بنا کر کے نماز پڑھے یا مکمل نماز کا اعادہ کرے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک جہاں سے امام کی اقتدا چھوڑی ہے وہیں سے بنا کرسکتا ہے، مکمل نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اس صورت میں بنا نہیں کرسکتا بلکہ پوری نماز دوبارہ پڑھے گا۔ امام بخاری ؒ کا میلان جمہور کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اس نے سلام پھیر کر نماز ختم کردی، پھر ایک گوشے میں اکیلے نے نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1040 (465)) (2) سورۂ حجرات سے آخر قرآن تک تمام سورتیں مفصل کہلاتی ہیں، پھر ﴿عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿١﴾) تک طوال، ﴿وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾) تک اوساط اور (الناس) تک قصار کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ عام طور پر سورۂ بروج تک طوال ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ تک اوساط اور (الناس) تک قصار کا نام دیا جاتا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عمرو بن دینار نے کہا کہ میں وہ دو سورتیں بھول گیا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے شاگرد حضرت شعبہ کو حدیث بیان کی، اس کے برعکس جب سلیمان بن حیان سے حدیث بیان کی تو وضاحت سے کہا کہ وہ دو سورتیں﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ تھیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ کا ذکر بھی ہے۔ (فتح الباري:253/2) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شرعی سبب کی وجہ سے ایک نماز کو ایک ہی دن میں دومرتبہ پڑھا جاسکتا ہے، البتہ بطور فرض ایک نماز کو دو دفعہ پڑھنا صحیح نہیں۔ کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ مت پڑھو۔‘‘ امام بیہقی ؒ نے اس کی تطبیقی صورت یہ بیان کی ہے کہ پہلی کو فرض اور دوسری کو نفل قرار دے دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم گھر میں نماز پڑھ لو پھر جماعت میں شمولیت کا بھی موقع مل جائے تو اسی نماز کو دوبارہ باجماعت پڑھ لینا چاہیے۔ دوسری نماز نفل ہوگی، نیز اگر ظالم حکمران نماز تاخیر سے پڑھیں تو اس وقت بھی یہی حکم ہے کہ گھر میں بروقت نماز پڑھ لی جائے پھر فتنے سے بچتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شمولیت کر لی جائے اور اسے نفل کا درجہ دیا جائے۔ (فتح الباري:255/2) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض طرق میں صراحت ہے کہ دوسری مرتبہ ادا کہ ہوئی نماز ان کے لیے نفل اور لوگوں کے لیے فرض ہوتی تھی۔ (فتح الباري:254/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
693
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
701
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
701
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
701
تمہید کتاب
اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے ۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے: اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے ،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔(فتح الباری: 2/102)چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ اذان اور اس کے متعلقات:اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔ یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات: اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔چونکہ ارشاد نبوی ہے: تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث:631)اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند) روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔ ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے ،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ (آمين) والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
تمہید باب
یہ عنوان پہلے عنوان سے بالکل برعکس ہے کیونکہ پہلے عنوان کا مقصد یہ تھا کہ اگر کسی امام نے امام کی نیت نہیں کی تو اس کی اقتداء کرنا جائز ہے جبکہ مذکورہ عنوان سے مقصود یہ ہے کہ اگر کوئی امام کی اقتدا کررہا ہے تو کسی ضرورت کے پیش نظر اس کی اقتدا ختم کرکے اکیلا نماز پڑھ سکتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: حضرت معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ہمراہ نماز (عشاء) پڑھتے تھے۔ فراغت کے بعد واپس جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے۔ ایک روز انہوں نے نماز عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تو ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ حضرت معاذ بن جبل ؓ اسے برا بھلا کہتے تھے۔ یہ خبر نبی ﷺ کو پہنچی تو آپ نے (حضرت معاذ ؓ سے) تین دفعہ فرمایا: "فتان، فتان، فتان، (فتنہ پرور)۔" یا یہ فرمایا: " فاتنا، فاتنا، فاتنا (فتنہ پرداز)۔" پھر آپ نے انہیں حکم دیا کہ اوساط مفصل کی دو سورتیں پڑھا کرو۔ راوی حدیث عمرو کہتے ہیں کہ میں ان کو بھول گیا ہوں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اگر کسی کو امام کی طویل قراءت سے تکلیف ہو تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ امام کی اقتدا چھوڑ کر اکیلا نماز پڑھ لے کیونکہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے امام کی اقتدا ختم کرنے والے کو ملامت نہیں کی بلکہ امام کو تنبیہ فرمائی ہے، لیکن امام بخاری ؒ اس حدیث سے ایک فقہی مسئلہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ایک شخص امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے اگر اس نے اقتدا چھوڑ دی تو کیا اس پر بنا کر کے نماز پڑھے یا مکمل نماز کا اعادہ کرے۔ امام شافعی ؒ کے نزدیک جہاں سے امام کی اقتدا چھوڑی ہے وہیں سے بنا کرسکتا ہے، مکمل نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں جبکہ جمہور کے نزدیک اس صورت میں بنا نہیں کرسکتا بلکہ پوری نماز دوبارہ پڑھے گا۔ امام بخاری ؒ کا میلان جمہور کی طرف ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ اس نے سلام پھیر کر نماز ختم کردی، پھر ایک گوشے میں اکیلے نے نماز پڑھی۔ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث:1040 (465)) (2) سورۂ حجرات سے آخر قرآن تک تمام سورتیں مفصل کہلاتی ہیں، پھر ﴿عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ ﴿١﴾) تک طوال، ﴿وَالضُّحَىٰ ﴿١﴾) تک اوساط اور (الناس) تک قصار کے نام سے پہچانی جاتی ہیں۔ عام طور پر سورۂ بروج تک طوال ﴿لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا﴾ تک اوساط اور (الناس) تک قصار کا نام دیا جاتا ہے۔ راوئ حدیث حضرت عمرو بن دینار نے کہا کہ میں وہ دو سورتیں بھول گیا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھنے کی تلقین فرمائی تھی لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب انھوں نے اپنے شاگرد حضرت شعبہ کو حدیث بیان کی، اس کے برعکس جب سلیمان بن حیان سے حدیث بیان کی تو وضاحت سے کہا کہ وہ دو سورتیں﴿وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا ﴿١﴾ اور ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى ﴿١﴾ تھیں۔ بعض روایات میں ان کے ساتھ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ ﴿١﴾ اور ﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ﴿١﴾ کا ذکر بھی ہے۔ (فتح الباري:253/2) (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی شرعی سبب کی وجہ سے ایک نماز کو ایک ہی دن میں دومرتبہ پڑھا جاسکتا ہے، البتہ بطور فرض ایک نماز کو دو دفعہ پڑھنا صحیح نہیں۔ کیونکہ حدیث میں اس کی ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ مت پڑھو۔‘‘ امام بیہقی ؒ نے اس کی تطبیقی صورت یہ بیان کی ہے کہ پہلی کو فرض اور دوسری کو نفل قرار دے دیا جائے۔ رسول اللہ ﷺ سے ایسا کرنا ثابت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم گھر میں نماز پڑھ لو پھر جماعت میں شمولیت کا بھی موقع مل جائے تو اسی نماز کو دوبارہ باجماعت پڑھ لینا چاہیے۔ دوسری نماز نفل ہوگی، نیز اگر ظالم حکمران نماز تاخیر سے پڑھیں تو اس وقت بھی یہی حکم ہے کہ گھر میں بروقت نماز پڑھ لی جائے پھر فتنے سے بچتے ہوئے ان کے ساتھ جماعت میں شمولیت کر لی جائے اور اسے نفل کا درجہ دیا جائے۔ (فتح الباري:255/2) اس حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ نفل پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے متعلق بعض طرق میں صراحت ہے کہ دوسری مرتبہ ادا کہ ہوئی نماز ان کے لیے نفل اور لوگوں کے لیے فرض ہوتی تھی۔ (فتح الباري:254/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
(دوسری سند) اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے عمرو سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے فرمایا کہ معاذ بن جبل نبی کریم ﷺ کے ساتھ (فرض) نماز پڑھتے پھر واپس جا کر اپنی قوم کے لوگوں کو (وہی) نماز پڑھایا کرتے تھے۔ ایک بار عشاء میں انھوں نے سورہ بقرة شروع کی۔ (مقتدیوں میں سے) ایک شخص نماز توڑ کر چل دیا۔ معاذ اس کو برا کہنے لگے۔ یہ خبر آنحضور ﷺ کو پہنچی (اس شخص نے جا کر معاذ کی شکایت کی) آپ نے معاذ کو فرمایا تو بلا میں ڈالنے والا ہے، بلا میں ڈالنے والا، بلا میں ڈالنے والا تین بار فرمایا۔ یا یوں فرمایا کہ تو فسادی ہے، فسادی، فسادی۔ پھر آپ نے معاذ کو حکم فرمایا کہ مفصل کے بیچ کی دو سورتیں پڑھا کرے۔ عمرو بن دینار نے کہا کہ مجھے یاد نہیں رہیں (کہ کونسی سورتوں کا آپ نے نام لیا۔)
حدیث حاشیہ:
اس سے امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا مذہب ثابت ہوا کہ فرض پڑھنے والے کی اقتداء نفل پڑھنے والے کے پیچھے درست ہے۔ حنفیہ نے یہاں بھی دورازکار تاویلات کی ہیں۔ جو سب محض تعصب مسلک کا نتیجہ ہے، مثلاً حضرت معاذ کے اوپر آنحضرت ﷺ کی خفگی کے بارے میں لکھا ہے کہ ممکن ہے اس وجہ سے آپ خفا ہو ئے ہوں کہ دوبارہ کیوں جا کر پڑھائی (دیکھو تفہیم البخاری پ:3 ص:97) یہ ایسی تاویل ہے جس کا اس واقعہ سے دور تک بھی تعلق نہیں۔ قیاس کن زگلستان من بہار مرا
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Amr (RA): Jabir bin 'Abdullah said, "Mu'adh bin Jabal used to pray with the Prophet (ﷺ) and then go to lead his people in prayer Once he led the 'Isha' prayer and recited Surat "Al-Baqra." Somebody left the prayer and Mu'adh criticized him. The news reached the Prophet (ﷺ) and he said to Mu'adh, 'You are putting the people to trial,' and repeated it thrice (or said something similar) and ordered him to recite two medium Suras of Mufassal." ('Amr said that he had forgotten the names of those Suras).