تشریح:
(1) ’’پیش رو‘‘ سے مراد وہ شخص ہے جو قافلے سے پہلے آگے جا کر ان کے پڑاؤ اور دوسری ضروریات کا انتظام کرتا ہے۔
(2) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کا مرتبہ آپ کے بھائیوں سے بلند ہے کیونکہ بھائی تو سب امتی ہیں اور صحابہ صرف آپ کے فیض یافتہ۔
(3) یہ حدیث مسنون طریقے سے قبروں کی زیارت کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل قبور کو سلام کہنا اور ان کے لیے دعا کرنا مسنون عمل ہے۔
(4) نیک لوگوں سے ملاقات کی خواہش کرنا اور ان کی خوبیاں بیان کرنا درست ہے۔
(5) اس حدیث سے امت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ و السلام کی فضیلت بھی واضح ہوتی ہے اور حوض کوثر پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیش رو ہوں گے۔ سبحان اللہ! اس امت کو یہ شرف و فضل مبارک ہو جن کے پیش رو امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔