تشریح:
(1) روایت کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ شرم گاہ چھونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا۔ احناف نے اسی روایت کو دلیل بنا کر مس ذکر کو نواقض میں شمار نہیں کیا مگر یہ روایت بہت پہلے کی ہے کیونکہ حضرت طلق بن علی رضی اللہ عنہ آئے تو مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے گارا بنانے کی خدمت بھی لی تھی۔ گویا یہ روایت ہجرت کے پہلے سال کی ہے اور بسرہ کی روایت بہت بعد کی ہے کیونکہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ والے سال ۸ ہجری کو اسلام قبول کیا تھا، نیز حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ غزوُۂ خیبر کے سال ۷ ہجری کو اسلام لائے ہیں، وہ بھی شرم گاہ چھونے سے وضو ٹوٹنے کا ذکر کرتے ہیں۔ بنابریں دلائل کے اعتبار سے یہی موقف راجح ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر شرم گاہ کو چھویا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایت میں اس بات کی صراحت موجود ہے۔ دیکھیے: (مسند أحمد: ۳۳۳/۲) علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت بسرہ والی روایت کی تائید دوسری احادیث سے بھی ہوتی ہے جنھیں سترہ (۱۷) صحابہ بیان کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک راوی طلق بن علی بھی ہیں جن سے شرم گاہ چھونے سے وضو نہ ٹوٹنے کی روایت منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: ۳۶۲/۳ - ۳۷۲، تحت حدیث: ۱۶۴)
(2) مرد اور عورت اس حکم میں برابر ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’جو مرد اور عورت اپنی شرم گاہ کو ہاتھ لگائے، اسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘ (مسند أحمد: ۳۳۳/۲)
(3) اس مسئلے میں اگلی اور پچھلی شرم گاہ کا ایک ہی حکم ہے۔
(4) اپنی شرم گاہ کی طرح دوسرے کی شرم کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
(5) عورتیں گھروں میں بچوں کو استنجا وغیرہ کراتی ہیں تو اس کے متعلق یہی موقف راجح ہے کہ اسے بھی ناقض وضو شمار کیا جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (المجموع: ۳۰/۲، والمغني: ۲۴۴/۱)