تشریح:
(1) ”جب وہ مر جائے تو پھر کوئی نہ روئے“ کیونکہ نوحہ و بین مرنے کے بعد ہوتے ہیں، پہلے نہیں، لہٰذا کسی کی موت سے پہلے گھر والے رو سکتے ہیں کیونکہ رونا منع نہیں بلکہ نوحہ اور شکوہ شکایت منع ہے۔ جو موت کے بعد ہی ہوتے ہیں۔
(2) ”شہادت فی سبیل اللہ“ کے علاوہ شہادت کی سات صورتیں اور ہیں جن کی اس حدیث میں صراحت ہے۔ انھیں کس وجہ سے شہادت فی سبیل اللہ کے درجے میں رکھا گیا ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمیں بہرحال اس پر یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ حدیث میں مذکور افراد کو شہداء کے درجے سے سرفراز فرمائے گا۔
(3) ”سات صورتیں“ بعض دیگر احادیث میں انفرادی طورپر شہادت کی اور بھی کئی صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ وہ اس روایت کے منافی نہیں کیونک سات میں زائد کی نفی نہیں۔ گویا بطور مثال یہ سات ذکر کی ہیں، ورنہ اور بھی ہیں۔
(4) مریض کی عیادت کرنا ثواب کا کام ہے، نیز اس سے مریض کی دل جوئی ہوتی ہے۔
(5) اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اس لیے اگر آدمی نے کسی کام کی نیت کی ہوئی ہو اور اس کے لیے تیاری مکمل ہے لیکن اسے کرنے کا موقع نہیں ملا، تو اسے اس کی نیت کے مطابق اس کام کے کرنے کا اجر مل جائے گا۔
(6) عالم کو چاہیے کہ مسئلہ سمجھانے کا ایسا انداز اپنائے کہ سامعین کے دل میں وہ راسخ ہو جائے، کسی قسم کا شبہ باقی نہ رہے۔
(7) اللہ تعالیٰ کا اس امت پر فضل عظیم ہے کہ اس نے اس کے لیے شہادت کے کئی اسباب بنائے تاکہ یہ امت ان کی بنا پر بلند درجات حاصل کرسکے۔