قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

سنن النسائي: کِتَابُ الْمَوَاقِيتِ (بَابُ الْخُطْبَةِ قَبْلَ يَوْمِ التَّرْوِيَةِ)

حکم : ضعیف الإسناد 

2993. أَخْبَرَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ قَالَ قَرَأْتُ عَلَى أَبِي قُرَّةَ مُوسَى بْنِ طَارِقٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَجَعَ مِنْ عُمْرَةِ الْجِعِرَّانَةِ بَعَثَ أَبَا بَكْرٍ عَلَى الْحَجِّ فَأَقْبَلْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالْعَرْجِ ثَوَّبَ بِالصُّبْحِ ثُمَّ اسْتَوَى لِيُكَبِّرَ فَسَمِعَ الرَّغْوَةَ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَوَقَفَ عَلَى التَّكْبِيرِ فَقَالَ هَذِهِ رَغْوَةُ نَاقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَدْعَاءِ لَقَدْ بَدَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ فَلَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُصَلِّيَ مَعَهُ فَإِذَا عَلِيٌّ عَلَيْهَا فَقَالَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ أَمِيرٌ أَمْ رَسُولٌ قَالَ لَا بَلْ رَسُولٌ أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَرَاءَةَ أَقْرَؤُهَا عَلَى النَّاسِ فِي مَوَاقِفِ الْحَجِّ فَقَدِمْنَا مَكَّةَ فَلَمَّا كَانَ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِيَوْمٍ قَامَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ خَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ مَنَاسِكِهِمْ حَتَّى إِذَا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا ثُمَّ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَأَفَضْنَا فَلَمَّا رَجَعَ أَبُو بَكْرٍ خَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ عَنْ إِفَاضَتِهِمْ وَعَنْ نَحْرِهِمْ وَعَنْ مَنَاسِكِهِمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ عَلَى النَّاسِ بَرَاءَةٌ حَتَّى خَتَمَهَا فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّفْرِ الْأَوَّلُ قَامَ أَبُو بَكْرٍ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَدَّثَهُمْ كَيْفَ يَنْفِرُونَ وَكَيْفَ يَرْمُونَ فَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ فَلَمَّا فَرَغَ قَامَ عَلِيٌّ فَقَرَأَ بَرَاءَةٌ عَلَى النَّاسِ حَتَّى خَتَمَهَا قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ ابْنُ خُثَيْمٍ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ وَإِنَّمَا أَخْرَجْتُ هَذَا لِئَلَّا يُجْعَلَ ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ وَمَا كَتَبْنَاهُ إِلَّا عَنْ إِسْحَقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ لَمْ يَتْرُكْ حَدِيثَ ابْنِ خُثَيْمٍ وَلَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَّا أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ قَالَ ابْنُ خُثَيْمٍ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَكَأَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْمَدِينِيِّ خُلِقَ لِلْحَدِيثِ

مترجم:

2993.

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب عمرہ جعرانہ سے واپس تشریف لائے تو آپ نے حضرت ابوبکر ؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ ہم بھی ان کے ساتھ گئے حتیٰ کہ جب آپ عرج مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے تو صبح کی اقامت کہی گئی۔ آپ تکبیر تحریمہ کہنے کے لیے سیدھے ہوئے تو آپ نے اپنے پیچھے سے اونٹ کے بلبلانے کی آواز سنی۔ آپ تکبیر کہنے سے رک گئے اور کہنے لگے: یہ رسول اللہﷺ کی اونٹنی جدعاء کی آواز ہے۔ شاید رسول اللہﷺ کا خیال بھی حج کا ہو گیا ہے اور کہیں رسول اللہﷺ تشریف ہی نہ لے آئے ہوں، (ایسی صورت میں) ہم آپ کے پیچھے ہی نماز پڑھیں گے، لیکن (قافلہ آنے پر پتا چلا کہ) اس اونٹنی پر حضرت علی ؓ سوار تھے۔ حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا: آپ امیر بن کر آئے ہیں یا قاصد ہیں؟ حضرت علی ؓ نے کہا: نہیں بلکہ قاصد ہوں۔ رسول اللہﷺ نے مجھے اعلان براء ت کے لیے بھیجا ہے کہ میں وہ آیات (سورۂ براء ت) حج (و عمرہ) کے وقوف کی جگہوں پر لوگوں کو پڑھ کر سنا دوں، پھر ہم مکہ آئے، چنانچہ جب یوم ترویہ کو ایک دن رہ گیا تو حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں، پھر ہم حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ حج کو چلے حتیٰ کہ جب عرفہ (نو ذوالحجہ) کا دن ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ اٹھے اور لوگوں سے خطاب فرمایا اور لوگوں کو حج کی عبادات کے طریقے بتلائے حتیٰ کہ جب آپ فارغ ہوئے تو حضرت علی ؓ اٹھے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں، پھر قربانیوں والا دن (دس ذوالحجہ) ہوا تو ہم نے طواف افاضہ کیا۔ جب حضرت ابوبکر ؓ (طواف سے) واپس لوٹے تو لوگوں سے خطاب فرمایا اور انھیں مزدلفہ سے لوٹنے، قربانیاں کرنے اور دوسری عبادات حج کے طریقے بیان کیے۔ جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی ؓ کھڑے ہوئے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں۔ جب منیٰ سے واپسی کا پہلا دن ہوا تو حضرت ابوبکر ؓ کھڑے ہوئے، لوگوں سے خطاب فرمایا اور انھیں بتایا کہ وہ کیسے واپس جائیں اور کیسے رمی کریں گے۔ اسی طرح انھیں مناسک حج کی تعلیم دی۔ جب وہ فارغ ہوئے تو حضرت علی ؓ اٹھے اور لوگوں کے سامنے براء ت والی آیات آخر تک پڑھیں۔ ابو عبدالرحمن (امام نسائی) بیان کرتے ہیں: عبداللہ بن عثمان بن خثیم علی حدیث میں قوی نہیں۔ میں نے ان کی حدیث صرف اس لیے بیان کی ہے کہ کہیں ابن جریج عن ابی الزبیر کی سند کو صحیح نہ سمجھ لیا جائے۔ میں نے یہ حدیث (ابن خثیم کے واسطے والی) صرف اسحق بن راہویہ بن ابراہیم سے لکھی ہے۔ ویسے یحییٰ بن سعید قطان اور عبدالرحمن بن مہدی نے بن خثیم کی حدیث کو سرے سے متروک قرار نہیں دیا، البتہ علی بن مدینی نے فرمایا ہے کہ ابن خثیم کی حدیث منکر (ضعیف) ہوتی ہے۔ اور امام علی بن مدینی کا مرتبہ یہ ہے کہ گویا وہ صرف علم حدیث ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔