تشریح:
(1) بعض محدثین نے یہ روایت ابن خثیم کے واسطے کے بغیر بیان کی ہے لیکن اس صورت میں یہ روایت منقطع بنتی ہے کیونکہ ابن جریج ابو الزبیر کا نام لے کر ایسی روایات بیان کر دیتے ہیں جو انھوں نے ان سے نہیں سنی ہوتی تھیں۔ اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ واسطے والی روایت بیان کی ہے۔ واسطے والا راوی ابن خثیم متکلم فیہ ہے۔ امام علی بن مدینی جیسے عظیم الشان امام نے ان کے ضعیف ہونے کی صراحت فرمائی ہے، لیکن بعض محققین نے اسے ابن خثیم کی بجائے صرف ابو زبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔ بہرحال یہ روایت ضعیف ہے۔ واللہ أعلم
(2) ”امیر حج بنا کر بھیجا“ یہ عمرہ جعرانہ کے فوراً بعد کی بات نہیں بلکہ اگلے سال ۹ ہجری ذوالقعدہ کی بات ہے۔
(3) ”عرج“ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک بستی یا پہاڑ کا نام ہے۔
(4) ”قاصد“ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجنے کی وجہ یہ تھی کہ براءت کا اعلان ایسا اہم اعلان تھا کہ یا تو رسول اللہﷺ خود فرماتے یا آپ کا کوئی رشتے دار۔
(5) ”براء ت کی آیات“ اس سے مراد سورۃ التوبہ کا ابتدائی رکوع ہے جس میں مشرکین کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب عرب میں تمہارا کردار ختم ہو چکا ہے۔ چار ماہ بلکہ حرمت والے مہینوں کے اختتام تک سوچ سمجھ لو۔ مسلمان ہو جاؤ یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ یا عرب خالی کر دو۔ نتیجتاً سب لوگ مسلمان ہوگئے اور عرب شرک سے خالی ہوگیا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: ۲۹۶۰، ۲۹۶۱)
(6) ”یوم ترویہ“ ذوالحجہ کی آٹھ تاریخ۔ یوم ترویہ سے ایک دن قبل خطبہ حج کا حصہ نہیں ہے۔ چونکہ یہ پہلا حج تھا، لوگ ناواقف تھے، اس لیے بار بار خطاب کی ضرورت پڑی۔ حج کا اصل خطبہ یوم عرفہ ہی میں ہے۔ باقی ضرورت پر موقوف ہیں۔
(7) یوم عرفہ سے مراد ۹ تاریخ، یوم نحر سے ۱۰ تاریخ اور واپسی کے پہلے دن سے مراد ۱۲ ذوالحجہ اور واپسی کے دوسرے دن سے مراد ۱۳ تاریخ ہے۔ ۱۱، ۱۲، ۱۳ کو ایام تشریق کہتے ہیں۔