تشریح:
(1) مقصد یہ ہے کہ اعمال کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوں‘ نیت صحیح نہ ہو تو وہ اعمال ثواب کی بجائے الٹا عذاب کا ذریعہ بن جائیں گے‘ خواہ لوگ اس کی وقتی طور پر تعریف کریں یا نہ کریں۔ ظاہر الفاظ سے شبہ پڑتا ہے کہ لوگ تعریف کریں تب اسے عذاب ہوگا لیکن یہ مطلب صحیح نہیں۔ عذاب کا تعلق نیت کی خرابی سے ہے نہ کہ لوگوں کے تعریف کرنے سے۔ اگرصحیح نیت ہو تو لوگوں کی تعریف نقصان نہیں پہنچائے گی بلکہ مخلوق کی گواہی اس کی نجات اور رفع درجات کا سبب بنے گی۔ (1) ’’ناتل‘‘ یہ سائل کا نام ہے۔ ناتل بن قیس۔ (3) ’’تونے جھوٹ بولا‘‘ یعنی دعوئی اخلاص میں‘ ورنہ ظاہر ہے واقعہ تو درست ہے۔ (4) ’’آگ میں پھینک دیا جائے گا‘‘ کیونکہ دین میں ریا کاری شرک اصغر ہے۔