تشریح:
(1) شوال کا لفظی معنی ذرا قبیح ہے‘ اس لیے جاہلیت کے لوگ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے اور اس میں شادی بیاہ کے قائل نہ تھے جیسا کہ آج کل لوگ محرم میں شادی بیاہ کو جائز نہیں سمجھتے کہ یہ سوگ کا مہینہ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ جو جوڑا شوال میں شادی کرتا ہے۔ ان میں باہمی اختلاف، دشمنی اور نفرت پھوٹ پڑتی ہے اور وہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام ایسے توہمات کا قائل نہیں۔ وہ تمام معاملات اللہ تعالیٰ کی ذات وبرکات کے سپرد کرتا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کو کسی مہینے میں شادی بیاہ سے نہیں ڈرنا چاہیے۔
(2) ”پسند فرماتی تھیں۔“ حضرت عائشہؓ کا یہ پسند فرمانا جاہلیت کے نظریے کی تردید کی بنا پر تھا اور اگلی بات ”کون مجھ سے…“ بھی اسی لیے تھی۔
(3) بعض ایام، اشخاص، اوقات اور مہینوں سے نحوست پکڑنا جاہلیت کا کام ہے۔ کوئی وقت منحوس نہیں۔ سارے وقت اللہ کے بنائے ہوئے ہیں۔
(4) ”گھر بسایا“ یعنی تین سال بعد۔
(5) ”خوش نصیب“ رسول اللہﷺ کی طرف سے جو محبت، توجہ اور احترام حضرت عائشہؓ کو حاصل ہوا، کسی اور ام المومنین کو حاصل نہ ہوا۔ اور میں ان کی ذہانت، فطانت، ادب اور خلوص کو زیادہ دخل ہے۔ امت کی تعلیم خصوصاً خانگی امور کے بارے میں انہی کے ساتھ خاص ہے۔ رَضِي اللّٰہُ عَنْها وَأَرْضَاها۔