تشریح:
(1) خاوند اپنی بیوی کو طلاق کا اختیار دے سکتا ہے کہ اگر تو چاہے تو طلاق لے لے۔ اگر عورت جواب میں کہے: میں نے طلاق لے لی تو اسے طلاق ہوجائے گی۔ البتہ اختلاف ہے کہ وہ طلاق رجعی مدت مقرر کردے تو اس مدت میں بھی وہ کسی وقت طلاق اختیار کرسکتی ہے جیسے رسول اللہﷺنے حضرت عائشہؓ کو مہلت دی کہ فوراً جواب نہ دے تو کوئی حرج نہیں بلکہ اپنے والدین سے مشورہ کرنے کے بعد جواب دے دینا۔
(2) نبیﷺ کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے ابتدائی دور میں آپ سے اخراجات کے مطالبے کیے تھے جو آپ کی دسترس سے باہر تھے‘ نیز وہ آپ کی نبوی مزاج کے بھی خلاف تھے‘ اس لیے آپ کو پریشانی ہوئی۔ اللہ تعا لیٰ نے حل تجویز فرمایا کہ آپ کی بیویوں کا مزاج‘ نبوی مزاج کے مطابق ہونا چاہیے۔ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہیں۔ توجہ دنیا کی بجائے عقبیٰ کی طرف ہو۔ اگر ہو اس مزاج کو اختیار نہ کرسکیں تو آپ سے طلاق لے لیں اور دنیا کہیں اور تلاش کرلیں۔ آپ نے یہی بات اپنی بیویوں سے ارشاد فرمائی۔ مقصد ان کی تربیت تھا۔ ایک ماہ تک وہ رسول اللہﷺ کی جدائی سے بہت کچھ سیکھ چکی تھیں‘ لہٰذا سب نے رسول اللہﷺ اور آخرت کو پسند کیا اور ہر عسرویسر میں ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور پھر آخر زندگی تک ان کی زبان سے کوئی مطالبہ نہ نکلا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْهُن وَأَرْضَاهُنَّ۔