تشریح:
(1) کیونکہ زندگی کا کوئی یقین نہیں۔ موت کسی بھی وقت آسکتی ہے‘ لہٰذا مطلوب وصیت فوراً کرنی چاہیے‘ نیز وصیت پر گواہ بھی مقرر کرلیے جائیں تاکہ بعد میں جھگڑا نہ پڑے۔ وصیت بھی تحریری ہونی چاہیے تاکہ اختلاف نہ ہو۔ دو راتوں کے ذِکر سے ظاہراً سمجھ میں آتا ہے کہ ایک رات کی تاخیر کرسکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ممکن ہے دو کا ذکر اتفاقاً ہو جیسا کہ آئندہ کسی حدیث میں تین کا بھی ذکر ہے۔ گویا بلاضرورت ایک رات کی تاخیر بھی جائز نہیں۔
(2) علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ وصیت واجب نہیں ہے‘ صرف اس شخص کے لیے واجب ہے جس کے ذمے حقوق ہوں‘ مثلاً: فرض‘ امانت وغیرہ‘ تاہم مستحب ضرور ہے